-8 %
Aein Jawan Mardan - آئین جواں مرداں - آزادی صحافت کے علمبردار پیٹرز ینجر کی کہانی
- Category: Biography
- Pages: 126
- Stock: In Stock
- Model: STP-13195
Rs.450
Rs.490
آئینِ جواں مرداں
آزادی صحافت کے اولین علمبردار پیٹر زینجر کی کہانی
ترجمہ نگار: آفتاب احمد
مصنف: ٹام گالٹ
ریاستی چیرہ دستیوں کے خلاف آزادیَ صحافت اور تحریر و تقریر کی آزادی کی کوئی کوشش معاشرے کی پشت پناہی کے بغیر بار آور نہیں ہوتی ۔ جدوجہد کرنے والا یا تو لاپتا کر دیا جاتا ہے یا شہید ۔ اٹھارویں صدی کے پہلے نصف کا امریکی معاشرہ اپنی جینیاتی ساخت میں شروع ہی سے آزاد منش تھا ۔ یہ پابندیوں سے بھاگے ہوئے ’’وکھرے‘‘ لوگ تھے جو اپنی جنم بھومیوں کی تپتی چھاءوں سے تنگ آ کر کلیسا اور ریاست کی پابندیوں سے ٓازاد زندگیوں کی کھوج میں ِ بے یقینی کا اوقیانوسِ بیکراں پار کر کے امریکا پہنچے تھے ۔ ایسوں کا ہی دم تھا کہ امریکا میں پیٹر زینجر جیسے قلندرانِ آزادی فریڈم آف پریس کا پرچم بلند کیے رہے اور آمرانہ روِش اختیار کرنے والوں کو پسپا ہونا پڑا ۔ پیٹر زینجر کو بجا طور پر امریکہ میں پریس کی آزادی کا پہلا جنگجو کہا جاتا ہے ۔ 1735ء میں اس پر چلنے والا مقدمہ اور اس کا نتیجہ امریکی اعلانِ آزادی کا حرفِ اول ثابت ہوا ۔ امریکا اور آگے چل کر دنیا بھر میں آزادیَ صحافت کے قوانین میں آج بھی پیٹر زینجر کے مقدمے کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ بنجمن فرینکلن نے یکم دسمبر 1737ء کو پنسلوانیا گزٹ میں لکھا:’’ پریس کی آزادی کا انحصار اس مقدمے پر تھا ۔ ‘‘ اگر پیٹر زینجر ثابت قدم نہ رہتا اور نیویارک کا شہری معاشرہ اس کا ساتھ نہ دیتا تو شاید امریکا کو تاجِ برطانیہ سے خود کو آزاد کروانے میں ایک صدی اور لگ جاتی ۔
۔
یہ کتاب ہمارے لیے بھی بہت اہم ہے ۔ گو کہ ہمارا زمان و مکان پیٹر زینجر سے قدرے مختلف ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پیٹر زینجر کی لڑائی ریاست سے تھی اور معاشرہ اس کا ہم نوا تھا جب کہ ہمیں یہ لڑائی معاشرے سے لڑنی پڑ رہی ہے اور ریاست سے بھی ۔ شاید ہم اپنی تاریخ کے پیٹر زینجری مرحلے سے نبرد آزما ہوئے بغیر گزر آئے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی کئی پیٹر زینجر گزرے لیکن معاشرہ ان سے لاتعلق رہا اور وہ گورنر کوسبی جیسوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر تاریخ کے ریگستان میں گم ہو گئے ۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ ہم تاریخ کے کس گھنٹا گھر کے کونسےچوک پر کھڑے ہیں اور یہ کہ ہمارے ہاں پیٹر زینجری دور گزر چکا ہے یا آنے کو ہے ۔ یہ کتاب شاید اس دھندلکے سے باہر آنے میں آپ کے کچھ کام آ سکے ۔
آزادی صحافت کے اولین علمبردار پیٹر زینجر کی کہانی
ترجمہ نگار: آفتاب احمد
مصنف: ٹام گالٹ
ریاستی چیرہ دستیوں کے خلاف آزادیَ صحافت اور تحریر و تقریر کی آزادی کی کوئی کوشش معاشرے کی پشت پناہی کے بغیر بار آور نہیں ہوتی ۔ جدوجہد کرنے والا یا تو لاپتا کر دیا جاتا ہے یا شہید ۔ اٹھارویں صدی کے پہلے نصف کا امریکی معاشرہ اپنی جینیاتی ساخت میں شروع ہی سے آزاد منش تھا ۔ یہ پابندیوں سے بھاگے ہوئے ’’وکھرے‘‘ لوگ تھے جو اپنی جنم بھومیوں کی تپتی چھاءوں سے تنگ آ کر کلیسا اور ریاست کی پابندیوں سے ٓازاد زندگیوں کی کھوج میں ِ بے یقینی کا اوقیانوسِ بیکراں پار کر کے امریکا پہنچے تھے ۔ ایسوں کا ہی دم تھا کہ امریکا میں پیٹر زینجر جیسے قلندرانِ آزادی فریڈم آف پریس کا پرچم بلند کیے رہے اور آمرانہ روِش اختیار کرنے والوں کو پسپا ہونا پڑا ۔ پیٹر زینجر کو بجا طور پر امریکہ میں پریس کی آزادی کا پہلا جنگجو کہا جاتا ہے ۔ 1735ء میں اس پر چلنے والا مقدمہ اور اس کا نتیجہ امریکی اعلانِ آزادی کا حرفِ اول ثابت ہوا ۔ امریکا اور آگے چل کر دنیا بھر میں آزادیَ صحافت کے قوانین میں آج بھی پیٹر زینجر کے مقدمے کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ بنجمن فرینکلن نے یکم دسمبر 1737ء کو پنسلوانیا گزٹ میں لکھا:’’ پریس کی آزادی کا انحصار اس مقدمے پر تھا ۔ ‘‘ اگر پیٹر زینجر ثابت قدم نہ رہتا اور نیویارک کا شہری معاشرہ اس کا ساتھ نہ دیتا تو شاید امریکا کو تاجِ برطانیہ سے خود کو آزاد کروانے میں ایک صدی اور لگ جاتی ۔
۔
یہ کتاب ہمارے لیے بھی بہت اہم ہے ۔ گو کہ ہمارا زمان و مکان پیٹر زینجر سے قدرے مختلف ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پیٹر زینجر کی لڑائی ریاست سے تھی اور معاشرہ اس کا ہم نوا تھا جب کہ ہمیں یہ لڑائی معاشرے سے لڑنی پڑ رہی ہے اور ریاست سے بھی ۔ شاید ہم اپنی تاریخ کے پیٹر زینجری مرحلے سے نبرد آزما ہوئے بغیر گزر آئے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی کئی پیٹر زینجر گزرے لیکن معاشرہ ان سے لاتعلق رہا اور وہ گورنر کوسبی جیسوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر تاریخ کے ریگستان میں گم ہو گئے ۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ ہم تاریخ کے کس گھنٹا گھر کے کونسےچوک پر کھڑے ہیں اور یہ کہ ہمارے ہاں پیٹر زینجری دور گزر چکا ہے یا آنے کو ہے ۔ یہ کتاب شاید اس دھندلکے سے باہر آنے میں آپ کے کچھ کام آ سکے ۔
Book Attributes | |
Pages | 126 |