- Writer: Albert Camus
- Category: Novels
- Pages: 160
- Stock: In Stock
- Model: STP-12664
‘‘اجنبی‘‘ اور ترجمے کی داستان:
’’اجنبی‘‘ پہلی بار 1942ء میں چھپا تھا مگر جب آلبرٹ کامیو کو 1957ء میں ادب کا نوبیل پرائز ملا تو اس مختصر ناول کا دنیا میں بہت چرچا ہوا۔ میں اس وقت ہسپانیہ میں پاکستانی سفارت کا دبیر اوّل تھا۔ ان دنوں فرانس کے مشہور فلسفی یاں پال سارتر کا بہت شہرہ تھا۔ قہوہ خانوں میں اس کے نئے ”فلسفۂ ہستی“ کی تحریک پر گرما گرم بحثیں ہوا کرتیں۔ ہم بھی اس دماغی عیاشی سے لطف اندوز ہوتے مگر سچ بات تو یہ ہے کہ اس کا فلسفہ صحیح طور پر کسی کے پلّے نہ پڑتا۔ آلبیر کامیو کا یاںپال سارتر کی تحریک سے گہرا تعلّق تھا۔ چنانچہ جب یہ ناول چھپا تو یاروں نے اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے۔
کامیو بہت عرصہ الجزائر میں عربوں کے ساتھ رہا مگر ایک اجنبی کی طرح وہ ان کے تمدّن کی تہہ تک نہ پہنچ سکا اور اُن کی تہذیب سے اُسے دلچسپی تھی نہ ہمدردی۔ اس ناول میں ایک عرب عورت کی خوب پٹائی ہوتی ہے۔ اسے رسوا اور ذلیل کیا جاتا ہے مگر کسی کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک عرب عورت کو محبت کرنے کا کوئی حق ہی نہیں پہنچتا۔ وہ اپنے ہی ملک میں ایک غیر ملکی کی طرح ایک داشتہ بن کر رہ سکتی ہے۔ فرانسیسی بیوی تو شادی کے بعد بھی دوسرے مردوں سے راہ و رسم پیدا کر سکتی ہے مگر عرب عورت کو صرف یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ نان ونفقہ کے عوض عمر بھر کے لیے اپنا سب کچھ ناموس، عزّت، عصمت، وفا ایک مرد کی نظر کر دے۔
اس ناول میں ایک مریل کتّے کا کردار اس خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے کہ پڑھنے والوں کو اس سے نہ صرف گہری ہمدردی ہو جاتی ہے بلکہ جب اسے ذرا ہلکی سی سزا ملتی ہے تو اس کے مالک پر بہت غصّہ آتا ہے۔ برعکس اس کے جب عرب عورت کی خاصی مرمت ہو تی ہے تو اس پر کسی کو ترس نہیں آتا۔ ایک عرب کڑیل جوان موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور قاری کی ہمدردی کا طوفان تمام تر قاتل کی طرف اُمڈتا چلا جاتا ہے۔
ناول کے ہیرو موسیو مرسو کا کر دار بہت ہی سادہ اور پیچیدہ ہے۔ وہ ایک نہایت دلچسپ شخصیت ہے مگر اس کا سمجھنا کچھ اس قدر آسان نہیں ہے اور اکثر گم سُم رہتا ہے۔ کبھی کبھار بات کرتا ہے تو یہی ایک آدھ جملہ، ہلکی سی طنز،مبہم ساکنا یہ اشارہ مگر موسیو مرسو یاروں کا یار ہے، نہ کسی سے بغض نہ عناد۔چھوٹی سی بات پر خوش ہو جاتا ہے اور بڑی سے بڑی بات پر ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ ایک سادہ لو ح انسان ہے، مرنجان مرنج، زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر وہ پھولا نہیں سماتا اور بڑے سے بڑے رنج و محن ہنسی خوشی برداشت کر لیتا ہے۔
نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایتِ زمانہ
غرض ایک مجموعۂ اضداد ہے۔ دیوانہ مگر کارِ خویش سے بیگانہ۔ کچھ پلّے نہیں پڑتا اور سمجھ بھی کیوں کر آئے، وہ بہت کچھ کہتا بھی تو نہیں۔
چنانچہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھائیں۔ لفظوں کے معنی تو لغت میں مل جاتے ہیں، مگر معنوں کی تہہ تک پہنچنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ ہم نے برسوں کوشش کی مگر آخر کار تنگ آکر کام ادھورا چھوڑ دیا۔ جب اپنی تسلی ہی نہ ہو تو کسی اور کی سمع خراشی سے کیا حاصل۔ سوچا کہ فرانسیسی ایک خوبصورت کلاسیکی زبان ہے اور گیسوئے اُردو ابھی منّت پذیر شانہ ہے، ایسے میں اس قدر حساس ناول کا کامیاب ترجمہ کیوں کر ہو سکے گا اور اپنے عجز کا یہ عالم کہ ایک زبان پر قدرت ہے نہ دوسری پر۔ جوانی کے جوش میں خوامخواہ وہ کام شروع کر ڈالا جس سے اچھے بھلے استاد گھبرائیں۔مدتوں ترجمہ کا مسودہ میرے کاغذات میں پڑا رہا۔
میں 1972ء میں برازیل میں پاکستان کا سفیر تھا۔ بیگم اچانک بیمار پڑیں۔ برازیل میں علاج کا خاطر خواہ بندوبست میسر نہ تھا۔ چنانچہ انھیں سان پائولو لے جانا پڑا، جہاں ان کا ایک بڑا آپریشن ہوا۔ اُن کی تیمارداری کے دوران میں نے دیکھا کہ میری بیٹی روبینہ جو فرانسیسی سے خوب واقف ہے، کامیو کا ناول پڑھ رہی ہے۔ جی چاہا کہ بیٹی کے ساتھ مل کر پھر سے ’’اجنبی‘‘ کا ترجمہ کیا جائے۔ ہم نے ہسپتال میں کام کا آغاز تو کر دیا مگر....
عشق آساں نمود اوّل ولے افتاد مشکلہا
خدا خدا کر کے بیگم کی رہائی ہسپتال سے ہوئی۔ اللّٰہ نے اُس کی جان بخشی اور ہم ترجمے کا کام بھول گئے۔ پچھلے برس ڈاکٹر محمد اجمل پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ وہ میرے ہم جماعت ہیں اور جگری دوست۔ میں نے اُن سے اپنی حماقت کا ذکر کیا تو انھوں نے مسودہ اٹھا کر ڈاکٹر لئیق بابری کو بھیج دیا۔ ڈاکٹر بابری اُن دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں فرانسیسی زبان کے استاد تھے۔ انھوں نے میری کوشش کو نہ صرف سراہا بلکہ دوست کے حق میں مبالغہ آمیز تعریف کی۔ میں ذرا چونکا۔ ہمت کر کے نظرِ ثانی کے لیے وقت تلاش کیا۔ ترجمے میں اس قدر غلطیاں نظر آئیں کہ میں نے از سرِ نو کام کا آغاز کیا۔ سال بھر کی محنت کے بعد جب مجھے ذرا اطمینان سا ہو اتو میں نے ڈاکٹر محمد حسن عسکری کو تکلیف دی کہ وہ ازراہِ کرم مسودے کو ایک نظر دیکھ لیں۔ ڈاکٹر عسکری فرانسیسی زبان کے مزاج سے خوب واقف ہیں اور اردو کے تو ایک صاحبِ طرزِ مصنّف ہیں۔ انھوں نے ’’اجنبی‘‘کے ایک ایک جملہ کو غور سے پرکھا۔ محاورہ اور تذکیرو تانیث کی جو غلطیاں انھوں نے درست کیں، وہ صرف ایک صاحبِ زبان کا ہی حصّہ تھا۔
اب ایک طویل مدّت کی پس و پیش کے بعد میں جسارت کر رہا ہوں کہ یہ ترجمہ قارئین کے سامنے پیش کر دوں۔ اگر آپ میں سے ایک آدھ پڑھنے والے نے بھی یہ کتاب پسند کی تو میں سمجھوں گا کہ میری برسوں کی محنت ٹھکانے لگی۔
آخر میں مجھے دو دوستوں کا خاص طور پر شکریہ ادا کرنا ہے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نے مجھے یہ مژدہ بھیجا کہ پاکستان میں کاغذ کی بہت کمی ہے، اس لیے کتاب چھپوانے کا خیال فی الحال ترک کر دینا چاہیے۔ پروفیسر محمد سرور نے لکھا کہ آخر کیوں؟ ہمارے یہاں کتابوں پر نہ مصنّف نہ ناشر گزر اوقات کر سکتا ہے۔ اگر تسکینِ ذوق ہی مقصود ہے، تو پھر ایسے ناشر کی طرف رجوع کیا جائے جو روٹی کمانے کے لیے انڈے اور مرغیاں بیچتا ہے اور ادب کی خدمت کی خاطر معیاری کتابیں چھاپتا ہے۔
ڈاکٹر افضل اقبال
پاکستان ہاؤس، سٹاک ہام (سویڈن)
26 دسمبر 1974ء
Book Attributes | |
Pages | 160 |