اس کتاب میں منڈیلا نے اپنے بچپن، جوانی، تعلیم، وکالت نسل پرستانہ نظام کے خلاف عوام کے حقوق کے لئےجدوجہدجس کی پاداش میں اپنے اوپر ہونے والے غداری کے مقدمے میں گرفتاری اور 27سالہ قید بامشقت پر تفصیل سے لکھا ہے۔
آزادی کا طویل سفر ( خود نوشت) نیلسن منڈیلا، ترجمہ خالد محمود خان۔..
حال ہی میں ”قید یاغستان“ پڑھنا شروع کی تو سامنے سے تب تک نہیں ہٹی جب تک مکمل نہ کر لی۔
انگریزی زبان کا مقولہ ہے کہ ”سچ افسانے سے بھی زیادہ حیران کن ہوتا ہے۔“ اگر کسی کتاب یا ناول پر اس کا صد فیصد اطلاق ہو سکتا ہے تو وہ ”قید یاغستان“ ہے۔ قید یاغستان محمد اکرم صدیقی صاحب کی پہلی اور آخر..
لایموت محض ایک خودنوشت نہیں گو کہ اسے اس پیرائے میں لکھنے کی کوشش ضرور
کی گئی ہے۔ اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے آپ کو بہت سی مانوس آوازیں
سنائی دیں گی اور بسا اوقات تو ایسا لگے گا کہ آپ کا ان کرداروں سے جنم
جنم کا رشتہ ہو۔ دبی کچلی آوازیں، کٹے پھٹے لوگ، مسخ شدہ زندہ لاشے جن سے
زندگی کی..
فکشن کی اقلیم میں اپنا سکہ منوانے کے بعد اکرام اللہ نے اپنی زندگی پر ، اس کے ابتدائی برسوں کے واقعات کو سامنے رکھ کر ، جس انداز سے نظر ڈالی ہے اسے ناولا نہ سوانح حیات کا
نام بھی دیا جا سکتا ہے ۔ مشرقی پنجاب اور امرتسر میں آج سے ستراسی برس پہلے کی گزاری ہوئی زندگی کو، جو
اب کسی اور سیارے کی داس..
ایک دور تھا جب آپ کی تحویل سے
کلاشنکوف سے زیادہ خطرناک سائیں جی ایم سید کی کسی کتاب کا نکلنا سمجھا جاتا تھا اور آج وقت ایسا بدلا ہے کہ وہی کتاب پنجاب میں شائع ہوئی ہے۔
"جیسا میں نے دیکھا" کے عنوان سے یہ کتاب، سندھی میں لکھی گئی کتاب "جيئن ڏٺو آهي مون" کا اردو ترجمہ ہے...
"اور لائن كٹ گئی" مولانا كوثر نیازی كی لكھی كتاب ہے۔كوثر نیازی بھٹو كی حكومت میں مذہبی امور كے وزیر تھے۔اس لحاظ سے بھٹو صاحب سے ان كی كئی ملاقاتیں رہیں۔اس دور میں پیش آنے والے كئی اہم واقعات كے چشم دید گواہ تھے۔جن کاتذكرہ اس کتاب میں ہے۔..
ڈاکٹر یوسف حسین خاں (۱۹۰۲- ۱۹۷۹ء) کا شمار برصغیر پاک و ہند کے نامور مورّخ، ماہرِ تعلیم، دانشور، نقّاد اور ادیب کے طور پر ہوتا ہے۔ بطور ماہرِ لسانیات اُن کو عربی، انگریزی، فرانسیسی، فارسی اور اُردو زبانوں پر کامل عبور تھا۔ ان کے چھ بھائیوں میں ڈاکٹر ذاکر حسین خاں مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر..
یہ کتاب ایک ایسے شخص کی آپ بیتی ہے کہ جو بچپن میں والدین کے ساتھ اندرون سندھ سے ہجرت کر کے کراچی آ گیا تھا۔ پھر کراچی نے اس سندھی بچے کو اپنی آغوش میں لیا، اس کی تربیت کی ،اسے علم وادب سے روشناس کروایا اور بالآخر اسے اپنے عشق میں مبتلا کر دیا۔ لیکن پھر ہوا یہ کہ اچانک اس شہر کو کسی بدخواہ کی نظر لگی..
لاہور کا نام آتے ہی طلسم و اسرار کی الف لیلہ کا ایک باب کھل جاتا ہے ۔ خود اس نام مین ایک طلسم ہے ایک پراسراریت ہے ۔ لاہور محض ایک شہر ہی نہیں ایک کیفیت ہے ۔ یہ کیفیت اس شہر کی نیم روشن گلیوں، اس کے پرانے تاریخی باغوں میں چلنے پھرنے کے بعد دل کی گہرائیوں میں جذب ہو جاتی ہے ۔ اے حمید کی تحریر آپ پڑھتے..
’’لوگ درلوگ کئی داستانوں کامجموعہ ہے۔ ضلع سیالکوٹ کے گاؤں متراں والی کے دومتحرک خاندانوں کی داستان، سرگودھا کے بسنے اوراسے بسانے والوں کی داستان۔ ایک سکھ خاتون، دیپ کوراوراُن کے انگریزشوہرکی بیٹی مریناوہیلرکی اپنی جڑوں کی تلاش کرنے کی داستان۔ پاکستان میں 1970ء کی دہائی میں امیدوں کے سیلاب کی داستان..