- Category: Novels
- Pages: 450
- Stock: In Stock
- Model: STP-13437
الشوک والقرنفل۔۔۔ مترجم: حامد قاسم پالن پوری
الشوک والقرنفل شہید یحییٰ سنوار کا لکھا ہوا ناول ہے جس کا ترجمہ "پھول اور کانٹے" کیا گیا ہے ۔
بہت دلچسپ ، خوبصورت اور تاریخی ناول ہے لیکن میں یہاں ایک غلط فہمی دور کرنا چاہتی ہوں کہ اردو سرورق پر سوانح حیات لکھ کر یہ ظاہر کیا جارہا ہے جیسے یہ مصنف کی اپنی سوانح ہے جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ انہوں نے پہلے صفحے پر ہی یہ لکھا ہے کہ یہ کہانی میری نہیں البتہ واقعات سچے ہیں۔
یہ کہانی ایک پانچ سالہ بچہ احمد شروع کرتا ہے جس کے ابا اور چچا یہودیوں نے اٹھا لیے تھے اور ایک دادا سارے کنبے کی پرورش کرتے تھے۔ چچی اور والدہ بچوں کی دیکھ بھال کرتیں۔ رشتوں کے توازن کے ساتھ ساتھ اس ناول میں فلسطین کے کیمپوں میں رہنے والوں کی زندگی ، پریشانیاں ، محبتیں اور مؤدتیں دکھائی گئی ہیں۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے گئے، اور سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوتا گیا کیا پریشانیاں آتی گئیں، فوج کا ہر گھر کے مردوں کو اٹھا لینا ،کسی کا غائب ہو جانا ایک عام روٹین کی بات بن گئی تھی ۔ جس گھر سے وہ ناول شروع ہوا اس گھر کے بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے ان کے افکار بھی تبدیل ہوئے اور ایک ہی گھر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن / لیڈر رہتے تھے ۔ ان کی آپس کی بات چیت بھی بہت دلچسپ طریقے سے دکھائی گئی ہے جس سے اس وقت کی سیاست کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
اس ناول میں بتایا گیا کہ فلسطینیوں کو صرف یہودیوں سے ہی نہیں لڑنا تھا بلکہ ان کے اندر ہی کئی مخبر بھی رہتے تھے جو ان کے دوستوں، عزیزوں اور بھائیوں کی شکل میں ان کے ساتھ ہی موجود تھے۔ اس گھر میں بھی ان کا ایک چچا زاد بھائی ایک یہودی عورت سے شادی کر کے وہاں رہنے لگتا ہے اور اپنے ہی بھائیوں کا مخبر بن جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا انجام بھی اس کے اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں ہوتا ہے ۔
ناول میں گھریلو زندگی بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے اور افراتفری کے عالم میں بھی جب ان کی ماں اپنے کسی بیٹے کے لیے لڑکی کی تلاش کرتی ہے تو ویسے ہی عام ماؤں کی طرح لڑکیوں کو کسی کی لمبی ناک، گھونگھریالے بالوں یا چھوٹے قد وغیرہ کی وجہ سے ریجکٹ بھی کرتی جاتی ہے ۔ لیکن وہاں کی روایات کے مطابق شادی سے پہلے لڑکا پہلے لڑکی کے گھر اسے خود دیکھنے بھی ضرور جاتا ہے۔ ????
ناول میں کہانی بیان کرنے والے نوجوان نے اپنی کہانی کم سنائی ہے البتہ اپنے سارے بھائیوں کی ، جو ہر ایک، ایک الگ تنظیم سے تعلق رکھتا ہے ، اس کی تنظیم کا تعارف، تنظیموں کے کام، جیل میں رہنا اور وہاں کی صعوبتیں برداشت کرنا، جیل میں لگے ہوئے جالوں کو پڑھ کر مجھے ابو شجاع ابو وقار (غازی اور جانباز والے) یاد آگئے ۔ جو باتیں ان کے ساتھ بھارت میں ہوئیں تھیں تقریباً وہی معاملات سنوار صاحب نے بھی لکھے ہیں ۔
یونیورسٹی میں طلبا کے کام، بیت المقدس میں پہلی مرتبہ جانا ، حرم ابراہیمی کا تحفظ، پتھروں اور چھڑیوں سے لڑنا، اور انہیں جمع کرنا۔۔۔ ایک نسل سے دوسری اور دوسری سے تیسری نسل میں اس جذبے کا پروان چڑھنا اس ناول کا اصل محرک ہے ۔ اس میں بتائے جانے والے واقعات سچے اور تاریخ کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ۔
ترجمہ اچھا ہوا ہے لیکن کہیں کہیں ترجمہ نگار ماضی سے حال کے صیغے پر آکر لکھنے لگتے ہیں جو تھوڑا عجیب لگتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہانی ہمیشہ صیغہ ماضی میں لکھی جاتی ہے۔
عائشہ راحت
Book Attributes | |
Pages | 450 |