غسّان کنفانی 9 اپریل 1936ء کو شمالی فلسطین کے شہر عکّا میں پیدا ہوئے۔ 1948ء کی جنگ اور تباہی، ان کے لڑکپن کی یادوں کا ایک حصّہ بن گئی جس کے نتیجے میں ان کے خاندان کو جلاوطن ہونا پڑا۔ یہی وہ تجربہ ہے جس نے ان کی افسانوی کائنات کو رنگ روپ دیا۔ کچھ وقت دمشق میں رہنےکے بعد وہ کویت چلے گئے اور وہاں پڑھات..
خان زادہ چودھویں صدی نصف آخر سے
سترھویں صدی کے نصف اول تک کے ان جانبازوں کی داستان ہے، جنھوں نے نہ صرف
مقامی اشرافیہ کے طور پر بھی اپنی جداگانہ حیثیت کو برقرار رکھنے کی کوشش
کی بلکہ اپنی عزت نفس اور مادر وطن سے شدید محبت اور اس کے تحفظ کے لیے
اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ بہادر ناہر یعنی ناہ..
جنرل ضیاءالحق کے دور امریت میں پابندی کا شکار ہونے والا ناول جو 45 سال بعد اب دوبارہ شائع ہوا۔گُرگ شب کے آنے سے مایوسی کا رنگ تازگی اور امید میں بدل گیا ہے اور بے کسی پر نوحہ خوانی کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اکرام اللہ نے ایک ایسا کام کیا ہے کہ اگر چیئرنگ کراس پر سونے کا بُت قائم کیا جائے تو مناسب ہو گ..
آئیوو اندریچ یوگوسلاوی ادب اور معاشرت کی اس عظیم روایت کا نمائندہ ہے جو قریب قریب تین صدیوں پر محیط ہے ۔ " درینہ کا پل " اس کا بڑا ناول ہے جسے 1961 میں نوبل پرائز بھی دیا گیا ۔ یہ ناول وازے گراڈ (بوسنیا) کے اس تاریخ پل کے پس منظر میں لکھی گئی شہکار کہانی ہے جسے 1571 سے 1577 تک محمّد پاشا نے تعمیر کی..
سو دن برما کے جنگلوں میں ایک نوجوان برطانوی افسر (19 سال) کی کہانی ہے جو دوسری جنگ عظیم کے شروع میں برما میں خطے کے پیچھے ایک طویل سفر پر نکلا تھا۔ اس کا یونٹ جاپانی خطے کے پیچھے سینکڑوں میل چل کر سپورٹ لائنوں پر تباہی مچا رہا تھا اور جاپانیوں کو اپنے پیچھے کی حفاظت کے لیے پیش قدمی سے دستوں کو ہٹانے..
ایک پُرانا تاریخی شہر، اپنی عظمتوں کی شام سے دوچار، اپنی ثقافت، اپنی
محبوبی، رہن سہن، تعلیم، عدل و انصاف اور وسیع المشربی پر اُچٹتی، اُداس
نظر ڈالتا ہوا، جو آخرکار غروب کی دل دوز ساعت میں موجود تو رہے گا مگر
تقریباً گُم شدہ، جیسے خالی ہوتے گھروں میں سائے اور صدائیں رہ جائیں۔
اُسامہ صدیق کے ..
Urdu Translation of "Disgrace"Translated By Ali Arif
رسوائی کی ساتویں سمت یہ رسوائی سے بھرپور معاملات پر مبنی
کتاب ہے۔جس کو پڑھتے ہوئے آپ تھمنے کا سوچ بھی نہیں سکتے بس اس کتاب کے
بہاؤ میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ آپ اڑتے چلے جاتے ہیں جیسے تیز ہوا میں سیاہ
دھویں کے غول اوپر افق کی جانب بلند اور پھر ..
1984ء بڑا خطرناک ناول ہے، اس میں نام بھی ہیں، مقام بھی اور کہانی بھی... لیکن یہ سب مل کر انسان کے بنائے ہوئے ظالمانہ نظام کی نئی داستان سناتے ہیں۔ اس کی اصل تو اصل ہے، طرزِ ادا کا جواب مشکل سے نکلے گا۔ اسے پڑھ کر آپ کا ردِعمل کیا ہو گا، یہ بتانا ناممکن ہے، ممکن ہے کہیں آپ کو غصہ آئے کہیں محبت، کہ..