Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Koi Nahi Dost - کوئی نہیں دوست

Koi Nahi Dost - کوئی نہیں دوست
Koi Nahi Dost - کوئی نہیں دوست
-27 %
Koi Nahi Dost - کوئی نہیں دوست
Koi Nahi Dost - کوئی نہیں دوست
Koi Nahi Dost - کوئی نہیں دوست
Rs.1,100
Rs.1,500

ڈاکٹر مناہید ورک کا شمار اُن شاعرات میں ہوتا ہے جنھوں نے دیارِغیر میں رہ کر اپنے تخلیقی جوہر اور محنت کے بل بوتے پر اپنی پہچان کرائی۔ اس کا زیرِ نظر شعری مجموعہ پڑھ کر یہ احساس فزوں تر ہو جاتا ہے کہ اس نے اپنے شعری سفر کو قابلِ رشک حد تک آگے بڑھایا ہے۔ اسے اپنے آدرش، سچائی اور تخلیقی قوت پر پورا یقین ہے۔ وہ اپنی آواز اور اپنے لہجے میں شعر کہتی ہے۔ اس کا تجربہ اپنا ہے، وہ جذبے اور فکر کے درمیان توازن رکھنے کا ہنر جانتی ہے۔ اس کی شاعری میں ایک جیتی جاگتی اور باشعور عورت سانس لیتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اپنے خوابوں اور جذبوں کو ایسی شدّت کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ حرف حرف لَو دینے لگتے ہیں۔ ناہیدؔ وِرک کا شعری سفر اُردو کے شعری اُفق پر ایک مستحکم آواز کے اُبھرنے کا اعلان کر رہا ہے۔
غضنفر ہاشمی
(ہیوسٹن، امریکہ)

ناہید ورک کی شاعری میں اپنے آپ سے سوال کرنے کی ہمت کا اور حیات و کائنات کے بھیدوں کو سمجھنے کی بھرپور جستجو ملتی ہے۔ اُن کی شاعری دل پر گزرنے والے واقعات کی تفسیر بھی ہے لیکن اُن کے دامن میں غور و فکر کا بہت سا سرمایہ بھی موجود ہے۔ اور یہ سب اس لیے کہ وہ نہ صرف سوچتی بھی ہیں بلکہ غوروفکر کے بعد یہ بھی کہتی ہیں ؎
میں تو سمجھی مِرا کوئی نہیں دوست
اُس سے بڑھ کر ملا کوئی نہیں دوست
اشفاق حسین
(کینیڈا)
ساتواں در کا خواب ہر آنکھ کی زینت نہیں بنتا۔ اس کے لیے حصارِ ذات کے اطراف آگ روشن کر کے دھونی رمانی پڑتی ہے۔ اور یہ تپسیا چند دنوں کی نہیں ہوتی سو اس سے گزرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ناہید وِرک اس امتحان سے گزر کر آج ساتویں در کے اندر داخل ہو چُکی ہے۔ یہ منزل آسانی سے حاصل نہیں ہوتی ۔ اس کے لیے برسوں خار زاروں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ بدن زخموں سے بھر جاتا ہے، پیراہن تار تار ہو جاتا ہے۔ اس در پر پہنچ کر بھی اتنی دیر تک دستکیں دینی پڑتی ہیں کہ ہاتھ اور پیشانی خون سے تر ہو جاتے ہیں تب کہیں جا کر یہ در کُھلتا ہے۔ میں نے سمجھا تھا ناہید وِرک کا نڈھال پیکر اس دَر کے کھلتے ہی منہ کے بل گر پڑے گا اور یہ نیم بے ہوشی کی کیفیت دیر تک رہے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اپنے خواب کے اس نگار خانے پرنظر پڑتے ہی اس کے اعصاب میں ایک نئی زندگی دوڑنے لگی ہے۔ اس کی تپسیا کا پھل اس کے سامنے ہے۔ وہ خواب جو تجریدی شکل میں تھا اب اک مکمل منظر نامے میں ڈھل چکا ہے۔ تصوّر کے اس نگارخانہ میں اب ناہید وِرک اپنے آپ کو خود پر منکشف ہوتا دیکھ رہی ہے۔
رفیع الدین رازؔ
(کراچی)

Book Attributes
Parts 192

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good