Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Amritsar Ki Billo - امرت سر کی بلو

Amritsar Ki Billo - امرت سر کی بلو
Amritsar Ki Billo - امرت سر کی بلو
New -30 %
Amritsar Ki Billo - امرت سر کی بلو
Amritsar Ki Billo - امرت سر کی بلو
Amritsar Ki Billo - امرت سر کی بلو
Rs.1,400
Rs.2,000

"امرت سر کی بلو" کہانی ہے چڑھتے اور اترتے پنجاب کی ان لاکھوں بیٹیوں کی جو تقسیم پاک و ہند کے دوران پانچوں پانیوں میں ملے زھر کی بھینٹ چڑھ گئیں. یہ خونچکاں داستان ہے ان عفت ماب دوشیزاؤں کی جن کی عصمتیں آزادی کے نام پرلٹیں. جی وہی آزادی جس کی آج ہمیں کوئی قدر نہیں-

کتاب سے اقتباس:

نسیم اورسویرا چونکہ ہم عمر تھیں سو جلد ہی انکی گاڑھی چھننے لگی۔ آزادی کی تحریک کبھی ان دونوں خاندانوں کی دوستی میں آڑے نہیں آئی۔ نسیم اگر مسلم لیگ سے قربت محسوس کرتی تھی تو سویرا کی ہمدردیاں آل انڈیا کیمونسٹ پارٹی کیلئے وقف تھیں۔ نسیم شروع میں کچھ عرصہ، سویرا اوراسکی سہیلیوں بملا،شیلا، پیرن اور کِٹو کےساتھ ملکر کیمونسٹ پارٹی کے دفتر بھی جایا کرتی لیکن ان لوگوں کی دین سے دوری دیکھ کر نسیم نے سویرا سے معذرت کر لی تاہم انکی ذاتی دوستی روز بروز مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ انکی دوستی کیوجہ سے سویرا کا چھوٹا بھائی راہول بھی نسیم سے بہت قریب ہو گیا تھا اور وہ اسے دیدی کہتا تھا۔ نسیم کا بھائی نوازش تازہ تازہ اغوأ ہوا تھا سو ملک صاحب کے گھرانے کو بھی شیام کی صورت میں بیٹا مل گیا۔ شیام کی آمدورفت بھی اب ملک صاحب کے گھربڑھ گئی تھی۔ وہ اکثر نسیم کو باتوں باتوں میں بتاتا کہ اسے ہندوانہ رسم و رواج سے شدید نفرت ہے۔ ایک روز وہ شام کو جب ملک صاحب کی طرف آیا تو نسیم رسوئی میں شامی کباب تل رہی تھی۔ اس نے شیام کو وہیں بلا لیا۔

’’دیدی میں سچ میں رسوئی میں آجاؤں‘‘ شیام نے حیرانگی سے دریافت کیا۔

’’ہاں ہاں شیام کیوں نہیں ۔ تم نے ایسا کیوں پوچھا‘‘۔

’’اسلئے دیدی کہ ہمارے دھرم میں اگر کسی اور دھرم کا بندہ رسوئی میں آجائے تو رسوئی پوتر نہیں رہتی بھرشٹ (ناپاک) ہو جاتی ہے‘‘ اس نے جواب دیا۔

’’نہیں ہمارے ہاں ایسی کوئی ممانعت نہیں۔ آؤ بیٹھو‘‘ نسیم نے چوکی اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’دیدی آپ ماس تل رہی ہو؟‘‘ اس نے اگلا سوال داغا۔

’’ہاں شیام میں کباب تل رہی ہوں۔ تم کھاؤ گے؟‘‘ اس نے دعوت دی۔

’’ناں بابا ناں ۔۔۔ہمارے دھرم میں تو ماس کھانا پاپ ہے۔ ایسا کرنے سے بھی دھرم بھڑشٹ ہو جاتا ہے ‘‘ پھر کچھ دیر خاموش رہ کر دوبارہ گویا ہوا، ’’لیکن دیدی مجھے اسکی خوشبو بہت اچھی لگ رہی ہے۔ میرا من چاہتا ہے کہ میں کھاؤں‘‘ وہ للچایا ہوا بولا۔

’’تو ہاتھ بڑھاؤ اور کھاؤ۔ تمہیں روکا کس نے ہے‘‘ ، نسیم نے تلے ہوئے کبابوں والی سینی (ٹرے)اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’دیدی اگر ماتا جی کو پتہ چل گیا تو پتا جی سے کہہ کر میری کھال ادھڑوا دیں گی‘‘۔

’’کوئی ماتا جی کو بتائے گا تو پتہ چلے گا ناں‘‘ نسیم نے حوصلہ افزائی کی۔

’’مطلب آپ سویرا دیدی کو بھی نہیں بتائیں گی؟‘‘

’’نہیں میرے پیارے بھیا بالکل بھی نہیں ‘‘ نسیم کے ضمانت دیتے ہی شیام نے ہاتھ بڑھایا اور اوپر تلے دو کباب منہ میں ڈال لئے اور نسیم اسکی بے صبری دیکھ کر ہنسنے لگی۔

’’یہ تو بہت مزے کے ہیں دیدی میں تو روز کھانے آیا کرونگا‘‘

’’جب مرضی آؤ تمہاری دیدی کا گھر ہے‘‘۔
’’ٹھیک ہے دیدی۔۔۔۔۔ اچھا سنیں پرسوں رکھشا بندھن ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ سویرا دیدی کے ساتھ ساتھ آپ بھی مجھے راکھی باندھیں۔ میں آپ سے بندھوانے آؤنگا‘‘ شیام کھلی دعوت ملنے پر خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے بولا۔ لگتا تھا کہ اسے کباب بہت پسند آئے ہیں۔
’’ارے تم نہ آنا میں خود ہی آ جاؤں گی ناں‘‘ نسیم بولی۔

’’نہیں نہیں ، اگر آپ آئیں گی تو مجھے کباب کھانے کو نہیں ملیں گے ناں‘‘ شیام نے معصومیت سے سچ کہہ دیا جسے سن کر نسیم کی بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی۔

’’اچھا اگر میں تمہیں راکھی باندھوں گی تو مجھے کیا دوگے‘‘؟ نسیم اسے تنگ کرنے کو بولی۔

یہ سن کر راہول سوچ میں پڑ گیا پھر بولا، ’’جب میں بڑا ہوکر نوکری کرونگا اس وقت پہلا بھاڑہ (تنخواہ) آدھا آدھا آپکو اور سویرا دیدی کو دونگا۔ ادہار چلے گا ناں‘‘؟

Book Attributes
Pages 336

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good