Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Bahir Jungle Andar Aagh - باہر جنگل اندر آگ

Bahir Jungle Andar Aagh - باہر جنگل اندر آگ
Bahir Jungle Andar Aagh - باہر جنگل اندر آگ
Bahir Jungle Andar Aagh - باہر جنگل اندر آگ
New -27 %
Bahir Jungle Andar Aagh - باہر جنگل اندر آگ
Bahir Jungle Andar Aagh - باہر جنگل اندر آگ
Bahir Jungle Andar Aagh - باہر جنگل اندر آگ
Bahir Jungle Andar Aagh - باہر جنگل اندر آگ
Rs.1,100
Rs.1,500

علی جعفر زیدی کی  کتاب “ باہر جنگل اندر آگ “ ایک معرکہ آثار داستان  ہے جو پاکستان کی جہد للبقا کا احاطہ کرتی ہے ۔ اِس بھاری بھرکم تاریخی ، سیاسی اور سوانحی  دستاویز کے بارے میں میرے لیے کچھ کہنا بہت مُشکل ہے کیونکہ  اس کی تخلیقی لوح کے حاشیے پر بہت سے نامیوں نے اپنی گواہیوں کے امٹ نشان ثبت کیے ہیں۔  اور بہت ہی معتبر آراء کے  سورج  رقم  ہیں جن کے سامنے میرے اس لفظی چراغ کی لو ماند ہے کہ ان نامیوں میں جناب معراج محمد خان ، حضرت پروفیسر امین مُغل ، قبلہ حسین نقی ، صوفی دانشور شاعر اور ناول نگار ہمراز احسن ، قیصرِ صحافت جناب اثر چوہان اور دانشمندِ گرامی خالد محبوب لڈو کے علاوہ  حسن جعفر زیدی بھی شامل ہیں اور حسن جعفر چونکہ مصنف علی جعفر کے برادرِ خورد ہیں ، اِس لئے اُن کی تحریر کو میں برخوردارانہ برادر نوازی سمجھ کر آنکھوں سے لگاؤں گا کہ یہ دو بھائیوں کی باہمی محبّت کا اقرار نامہ ہے ۔

جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں ، کتاب کے بارے میں اتنی مؤقر اسناد  کے بعد مجھ جیسے شاعرِ محض  کے لیے رائے دینے کا جواز تو نہیں رہ جاتا  مگر مصنف کے حکم سے کہ میرے  دیرینہ دوست ہیں ، سرتابی کی مجال نہیں  اس لئے چند سطور بطورِ مدحتِ سادات رقم کرتا ہوں ۔

" باہر جنگل ، اندر آگ " ایک ذوکتابی مرقع ہے جو ایک میں دو کتابیں سمونے یعنی کتاب در کتاب کا نادر  تجربہ ہے  ۔ باہر جنگل ایک معروضی داستان ہے جو کتاب و شنید کی بنیاد پر استوار ہے  ۔ شنید کا معاملہ یہ ہے  کہ شنیدہ کَے بود مانند دیدہ  ۔ چنانچہ سنی ہوئی باتیں باسی اور استعمال شدہ ہوتی ہیں اور جب وہ کسی تیسرے کان سے لب یا قلم پر  آتی ہیں تو اُن کی نوعیت اور ماہیت بدل جاتی ہے ۔ “ باہر جنگل “ کے مطالعے سے مجھے اس  بات کا شدت سے احساس ہؤا کہ جب خیالات یا واقعات ایک سے دوسرے  فرد تک منتقل ہوتے ہیں تو اُن کا چولا بدل جاتا ہے ۔  تاہم اس کتاب کی دوسری کتاب “ اندر آگ “ مصنف کے ذاتی تجربات پر مشتمل ہے ، جو اِس باہر کے جنگل کا داخلی منگل ہے ۔

جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ؟ لیکن جب اندر آگ ہو تو اُس کی تپش اور حدت دیر تک اور دور تک ماحول کو گرم رکھتی ہے اور یہی میرے دوست علی جعفر زیدی کے قلب و نظر میں جلتی فکری بصیرت کی آگ نے کیا ہے کہ اپنے اردگرد   دوامی شعلوں کا رقص کچھ اس طرح آراستہ کیا ہے کہ بھرت ناٹیم پنجابی بھنگڑا بن گیا ہے  اور اردو نے پنجاب کے دوآبوں میں اپنی نئی فصل اُگا لی ہے جس کا بیج ممکن ہے اردوئے معلّیٰ کے توشہ خانوں سے آیا ہو یا لکھنئو اور دلی کے باغیچوں کی توسیع ہو مگر اب اردو پنجاب کی ہے اور اکتارے پر اُوئی کو اُوں کے راگ میں گاتی ہے :
بس گئے پنجاب میں روئی کو رُوں کہنے لگے
ہائے اہلِ لکھنئو ، اُوئی کو اُوں کہنے لگے

جانے یہ کس کا شعر ہے مگر میں نے  اس کو داخلِ دفترِ پنجاب کر لیا ہے  اور اب اسی زبان میں پاکستان بیتی پڑھتا اور اِس میں اپنی رائے رقم کرتا ہوں ۔

القصّہ ، جس طرح ہر قطرہ دجلہ ہے اور ہر حرف نوائے سروش ، اسی طرح ہر پاکستانی اپنی جگہ ایک پاکستان ہے اور ہر پاکستانی کا اپنا الگ اور نویکلا پاکستان ہے ۔ اس وقت پاکستان میں اٹھارہ کروڑ پاکستان ہیں جو صدر ممنون کے ممنونِ احسان ہیں کہ انہوں نے ہر پاکستانی کو  اپنا اپنا پاکستان اپنے اپنے طریقے سے چلانے کا اختیار دے رکھا ہے ۔ بد عنوانوں کو کرپشن کا اختیار ہے، بھتہ خوروں کو بھتہ خوری کا ، علمائ کو فتویٰ فروشی کا ،  پیشہ وروں قاتلوں اور ہدف بنا کر قتل کرنے والوں کو ریہرسل کے طور پر قتل کرنے کا اختیار اور دھرنا داروں کو مسلسل دھرنے میں رہنے کا اختیار  ۔

ان اہلِ اختیار کی برکات سے پاکستان کا وجود ایک ایسی انار کی ہے جو دیکھی نہ سُنی ۔ تاریخ میں اس قسم کی دوسری کوئی مثال نہیں  مگر علی جعفر زیدی نے ہتھیلی پر سرسوں جمائی اور پاکستانو راما لکھ دیا جو میری ، آپ کی اور سارے پاکستانیوں کی اجتماعی سوانح حیات ہے اور کوئی منطقی نتیجہ اخذ کئے بغیر کتاب کو اس موڑ پر لا کر چھوڑا جہاں آج پاکستان کھڑا ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ۔

کتاب ، اگر  کسی دیرینہ شناسا ، دوست یا رفیق کار کی ہو تو اُس کے بارے میں بات کرتے ہوئے آدمی کو سارے پرانے رشتوں کا بھرم رکھنا پڑتا ہے جو میرے بس کی بات نہیں ۔ سو  آپ کو بارِدگر یاد دلا دوں کہ میں وہی کہ رہا ہوں ، جو کتاب کے مطالعے سے مجھ پر افشا ہؤا ہے ۔

کتاب کے بارے میں میری رائے کی تفہیم مقصود ہے تو  اس حقیقت کو ملحوظ رکھئیے گا کہ مصنف کرنال کا مہاجر ہے اور تبصرہ نگار کنارِ چناب کا جانگلی جس کا ددھیالی گاؤں  اور ننھیالی بستی  دونوں چناب کے کنارے واقع ہیں اور یہ کتاب بھی کسی نہ کسی طرح میرے ننھیالی شہر چنیوٹ سے شروع ہوتی ہے، جہاں میں نے بچپن میں تقسیم سے پہلے کی مسلم لیگ کے جلوس گلی سے گزرتے دیکھے اور بس چلا تو ایک آدھ نعرہ بھی نعرہ بازوں کے ساتھ مل کر گاہے بگاہے لگایا۔ قائد اعظم کی وفات کا اعلان اپنے کانوں سے سنا ۔

اس کتاب کا مصنف ایک پارٹی ہے جو مارکسزم ، سوشلزم ، صوفی اشتراکیت اور ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے  سے پاکستان کی سیاسی تعبیر کرتا ہے اور پاکستان کے کثیر النظریاتی معاشرے میں امن ، ترقی اور خوشحالی کی منزل کی طرف جانے والا راستہ تلاش کرتا ہے ، جو کہیں دکھائی نہیں دیتا  ۔ مصنف بھٹو کی پالیسیوں کی ناکامی کا نوحہ پڑھتا ہؤا پاکستان کے جعلی نظریہ سازوں کے لتّے لیتا ہے اور اپنے اس دعوے کو متعدد ثبوتوں کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا  اور قائد اعطم کوئی  مذہبی ریاست بنانا نہیں چاہتے تھے ۔ مصنف کی فکری بالیدگی اور روشن فکری نے بعض ایسی باتیں کھل کر کہی ہیں جن کے کہنے کی اجازت نہیں ہے ۔ سرسید احمد خان کی تحریک کے ضمنی عنوان تلے ایک مدلل بحث کا خاتمہ ان جملوں پر ہوتا ہے :
“ در اصل عرب دورِ جہالت میں تھےاور آج تک ہیں ۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس خطے میں بھیجے گئے اور اُن کا کچھ بگاڑ نہ سکے ۔ “

اس کتاب کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ اس میں ہر سیاسی شخصیت کے چہرے کا ماسک بڑی بے رحمی سے نوچ کر اصل کردار کو بے نقاب کرنے کا رویہ غالب نظر آتا ہے ۔ خواہ وہ اقبال ہوں، جمال الدین افغانی ہوں یا حسین احمد مدنی ، سب کی قلعی کھولنے کی کوشش کی گئی ہے۔ البتہ کہیں کہیں تفہیمی لغزشیں نظر آتی ہیں اور اگر بات شاعر اور شاعری کی ہو تو مجھے دفاع کرنا ہی ہے ۔ مصنف نے حسین احمد پر علامہ اقبال کی ہجو کا ذکر کیا ہے، جو اقبال جیسے شاعر کے حق میں ایک ظالمانہ رائے ہے ۔ اقبال نے ہجو نہیں کی بلکہ  حسین احمد کے نظریہ ء وطن سے اختلاف کیا ہے اور وہ بھی شاعری کی زبان میں ۔" ارمغانِ حجاز " میں "حسین احمد" کے عنوان تلے ایک مختصر سی نظم ہے ۔ ملاحظہ ہو :
ہنز ہند نداند رموز، دیں ورنہ
زدیو بند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی ست
سرود بر سرِ منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر زمقامِ محمدِ عربی ست
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
کہ گر بہ او نرسیدی تمام بو لہبی ست

اور یہ باہر کے جنگل کے وقوعے ہیں۔ علی جعفر زیدی کی قلبی واردات نہیں ۔ اس طرح حلقہ ء اربابِ زوق کا ذکر ہے جو ڈاکٹر عزیزالحق کے انقلابی افکار کا پلیٹ فارم رہا ہے ۔ میں بھی کئی برس اس حلقے کا حصہ رہا ہوں ۔ جب  سالانہ انتخاب کے بعد حلقہ ادبی اور سیاسی ٹکڑوں میں بٹا تو اس میں جائنٹ سیکریٹری کے امیدواروں میں شاہد محمود ندیم اور مسعود مُنّور آمنے سامنے تھے ۔ انتخاب کی بیل منڈھے نہ چڑھی ۔ جب حلقہ ادبی اور سیاسی میں تقسیم ہؤا تو میں ادبی حلقے کا جائنٹ سیکریٹری بنا جب کہ سیکریٹری سہیل احمد خان تھے۔ ادبی حلقے میں منیر نیازی ، اعجاز حسین بٹالوی ،انتظار حسین ، سلیم شاہد ، احمد مشتاق ، زاہد  ڈار ، شہرت بخاری اور انجم رومانی جیسے ادیب تھے۔ جب کہ دوسرے حلقے میں سارے انقلابی اور مارکسی تھے ۔  حلقے کا ذکر کرتے ہوئے علی جعفر زیدی نے ایک ایسا نام بھی حلقے کے کھاتے میں ڈال دیا جس کا اُس وقت حلقے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا ۔ چونکہ علی جعفر خود حلقے سے وابستہ نہیں تھے ، اس لئے یہ کہانی مستعار لگتی ہے ۔

کابل کا ذکر ہؤا تو چونکہ میں اُس ڈرامے کا کردار اور براہِ راست شریکِ کار رہا ہوں ، اس لیے مجھے علی جعفر کی جمع کی ہوئی معلومات سے اختلاف ہے ۔ پھر جہاں سہیل سیٹھی کا ذکر آیا ہے وہاں راجہ انور کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیئے تھا ۔ اُن دونوں کے علاوہ بھی لوگ کابل میں تھے ۔ زاہد فارانی ، اُس کی دو بہنیں  اور میں اُس عمارت  کے ، جو چاراہِ یعقوب میں واقع تھی ،  اولیں  مقیم تھے۔ اس جگہ کو پیپلز لبریشن آرمی کا پہلا ہیڈ کوارٹر بنایا گیا تھا ، جہاں میں نے بینر اور پرچم تیار کروائے تھے ۔

اس طرح کی کچھ اور واقعاتی باتیں ہیں ، جن سے مجھے اتفاق کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے ۔ مگر چونکہ یہ باہر جنگل کا معاملہ ہے اس لئے اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ اصل کتاب تو “ اندر آگ “ ہے ۔

علی جعفر زیدی ایک ماہر داستاں طراز ہیں ۔ اُنہوں نے اپنی ذات ، اپنے فکری ارتقا اور پاکستان کے تہرے رشتے کی تثلیث کچھ ایسی مشاقی سے بنائی ہے کہ ایک ایک سطر سے زندگی پھوٹی پڑتی ہے اور بیان کے بہاؤ  میں بے ساختگی کا تموج ہلکورے لیتا محسوس ہوتا ہے ۔ مصنف نے لفظوں سے جو تصویریں بنائی ہیں اُن کی بو قلمونی نظر کو خیرہ اور لہجے کی تازگی قلب و نظر کو سکون اور فرحت بخشتی ہے اور محسوس ہوتا ہے پاکستان سے محبت کرنے والا علی جعفر زیدی سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہنے کا ہنر جانتا ہے ۔ اگر میرے بس میں ہو تو اس کتاب کو پاکستانی سیاست دانوں کے تعلیمی نصاب کے لیے لازمی قرار دے دوں تاکہ اسمبلی کی رُکنیت کا ہر امیدوار باہر کے جنگل سے گزر کر اندر کی آگ تک رسائی حاصل کر سکے ۔ وہ اندر کی اگ جو پیتل کو کندن بناتی ہے اور پتھر کو پارس کرتی ہے ۔

اس کتاب کو پڑھتے ہوئے گاہے قرۃ العین حیدر کے گوتم نیلمبر دت نے لفظوں کے اُس پار سے جھانکا اور کبھی علی جعفر کے تدریسی ماحول کے بیان سے نالندہ یونیورسٹی کے ودیارتھیوں نے شنکھ بجایا  اور پورا برِصغیر ایک نقطے میں مرتکز ہوتا دکھائی دیا ۔ یہ کہانی ہے یا تاریخ ، یا دونوں ، میں نے پاکستان اور تقسیم کی تاریخ بھی پڑھی اور علی جعفر کی کہانی بھی سنی اور نہال ہؤا ۔ ایک عرصے بعد ایک اچھی اور سچی کتاب پڑھنے کو ملی۔ علی جعفر زیدی کا شکریہ ۔

Book Attributes
Pages 715

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good