Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Ban Baas - بن باس

Ban Baas - بن باس
Ban Baas - بن باس
-30 %
Ban Baas - بن باس
Ban Baas - بن باس
Ban Baas - بن باس
  • Writer: Raja Anwar
  • Category: Biography 
  • Pages: 334
  • Stock: In Stock
  • Model: STP-12295
  • ISBN: 978-969-662-533-9
Rs.1,050
Rs.1,500

راجہ انور کی کتاب ’’قبر کی آغوش‘‘ کے لیے تقریب پنجاب یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ جس کی صدارت ڈاکٹر مجاہد کامران نے کی تھی۔ اب اس کی دوسری کتاب ’’بَن باس‘‘ کی تقریب بھی پنجاب یونیورسٹی میں ہوئی ہے۔ یہ تقریب کہیں اور بھی ہو سکتی تھی۔ یہ راجہ انور کی اپنی مادرِ علمی کے ساتھ وابستگی ہے کہ وہ یہاں پُرانے زمانے کو نئے زمانے کے ساتھ ہم رنگ کرنا چاہتا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں ’’بَن باس‘‘ کے لیے بات کروں، یہ بات بھی سن لیں کہ یونیورسٹی میں اسے جیل جانا پڑا تھا۔ ایسے لوگوں کو جیل بھجوانے کا شوق بھی ظالم اور بزدل لوگوں کو بہت ہوتا ہے۔ ظالم تو بزدل ہوتا ہے۔ بزدل بھی ظلم کرنے سے باز نہیں آتے۔ اس مشہورِ زمانہ کتاب کا نام ہے ’’بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک‘‘۔ یہ عنوان پاکستان میں کتنی ہی کہانیوں کا عنوان بن گیا ہے۔ راجہ انور ایک بہادر آدمی ہے۔ وہ بہادر اہلِ قلم بھی ہے۔ اس نے اپنے قلم کو عَلَم بنا لیا ہے جو قلم کو تلوار بنا لیتے ہیں وہ اور طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ راجہ انور بالکل اور طرح کا آدمی ہے۔ افغانستان میں قیام کے حوالے سے اس کی کتابیں پڑھیں تو صاف پتا لگ جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں جیسا نہیں ہے۔ اپنی قبر کی آغوش میں پڑا پڑا بھی وہ اپنے قلب کی آغوش میں تھا جن کے لیے اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے پھرتا رہا۔ وہی اس کی جان لینے کے درپے تھے۔ وہ ان کے ہاتھ لگ گیا مگر نجانے کیا ہوا کہ وہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔ جو آدمی اپنے مرنے کی خبر خود اپنے کانوں سے سنے، وہ اپنے اندر شہید ہوتا رہتا ہے۔ کئی بار اس ’’شہادت‘‘ کی سعادت پانے کے بعد بھی وہ زندہ رہے تو وہ کتنا زندہ شخص ہو گا۔ راجہ انور زندہ تر آدمی ہے اور اسے یہ مقام اس کی کتابوں نے دیا ہے کہ وہ سب کچھ لکھنے کا اہل ہوا ہے جو اس کے ساتھ ہوا ہے اور اس کے دل پر بیتا ہے۔ اس کی پیاری ماں اس کی موت کی خبر سن کر مر گئی۔ ماں تو ہوتی ہی پیار اور وفا ہے۔ وہ بھی وفا کے قافلے سے بچھڑا ہوا ایک سالار ہے۔ جو اپنی موت کی خبر سنتا ہے اور ایک لرزہ خیز اور دل دہلا دینے والے ماحول میں زندہ رہتا ہے۔ جب وہ اپنی ماں کی قبر پر کھڑے ہو کے فاتحہ پڑھ رہا ہوگا تو فاتحانہ جانثاری کی یاد نے ایک نئی زندگی کا دروازہ اس کے لیے کھولا ہوگا۔ ’’قبر کی آغوش‘‘ اور ’’بن باس‘‘ اسی زندگی کا تحفہ ہیں۔ وہ راجہ سے مہاراجہ بن گیا ہے اور اسے پتا ہی نہیں چلا کہ اس کے پاس کوئی سلطنت نہیں ہے۔ کوئی جاگیر نہیں ہے۔ تو پھر اس کے پاس کیا ہے۔ مجھے پتا ہے مگر مجھے پتا نہیں۔ راز اور یاد بھی ایک سلطنت ہے۔ راز دو آدمیوں کے پاس نہیں ہوتا۔ راجہ انور نے ہمیں اپنا ہمراز بنا لیا ہے۔ راز کو فروغ دینے کا یہی طریقہ ہے۔ علم بھی راز ہے وہ جو کسی دوسرے کو علم نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

Book Attributes
Pages 334

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good
Tags: biography