- Writer: Ammar Masood
- Category: Biography
- Pages: 280
- Stock: In Stock
- Model: STP-13296
ایک متنازع مگر اہم کتاب!
متنازع اس لیے کہ جس شخص پہ یہ لکھی گئی ہے، وہ بہرحال بلوچ سماج میں مجموعی طور پر ایک متنازع کردار سمجھا جاتا ہے اور اہم اس لیے کہ اس کے ذریعے بلوچ تاریخ کے کئی واقعات پہلی بار منظرعام پر آئے ہیں۔ جن کی تصدیق و تردید کرنے والے کئی کردار ابھی حیات ہیں۔
میں اتفاق سے یہ کتاب چھپنے سے پہلے پڑھ چکا تھا، جب اس کے مصنف جناب عمار مسعود نے کوئی ڈیڑھ سال پہلے اسلام آباد میں مجھے پروف ریڈنگ کے لیے اس کا مسودہ حوالے کیا تھا۔ لیکن یہ کتاب اُس مسودے سے خاصی مختلف ہے۔ کچھ ابواب کا اضافہ کیا گیا ہے اور کئی ابواب سرے سے نکال دئیے گئے ہیں۔ تب اس پر کسی "محقق" کا نام بھی درج نہیں تھا۔ بالخصوص پہلے اور آخری اضافہ شدہ باب نے کتاب کا پورا مقدمہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔
یہ کہانی بنیادی طور پر میر ہزار خان کے پوتے بیورغ مری کی زبانی بیان ہوئی ہے۔ جنہوں نے عمار مسعود سے رابطہ کر کے انہیں اپنے دادا کا قصہ سنایا اور انہیں یہ سب لکھنے پہ مائل کیا۔ عمار مسعود صاحب فکشن نویس بھی ہیں اور شاعر بھی، سو انہوں نے داستان میں زبردست افسانوی رنگ بھرا جو خوب تھا، مگر بوجوہ اسے ہٹا دیا گیا۔
قبل ازیں یہ میر ہزار خان کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی تاریخ و معاشرت کا ایک زبردست مرقع تھا، اب یہ محض ایک شخص کی داستان ہے جو خود مصنف کے بقول مزاحمت سے ہوتا ہوا مفاہمت تک پہنچا۔
کتاب کے مصنفین اب چونکہ دو ہیں: ایک سیاسی اور ایک غیرسیاسی، اس لیے کتاب میں بھی بیک وقت دونوں موقف پائے جاتے ہیں۔ سیاسی مصنف بلوچ کا مجموعی کیس سیاسی انداز میں دیکھتا اور رکھتا ہے جبکہ غیرسیاسی مصنف غیرسیاسی انداز میں۔ اس کی ایک مثال بلوچستان کے انضمام کے واقعہ سے لی جا سکتی ہے۔ قبل ازیں مسودے میں مصنف نے قلات کے انضمام کا پورا پس منظر، ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا کی بحث کے پس منظر میں بیان کیا تھا۔ لیکن مذکورہ "محقق" نے شاید ان کی معلومات میں اضافہ کیا جس کے بعد اب کتاب میں شاہی جرگے کے ذریعے بلوچستان کے انضمام کی سرکاری کہانی کتاب کا حصہ بنائی گئی ہے۔ اصولاً مصنف کو دونوں ورژن دینے چاہئیں تھے۔
اس "ذو مصنفیت" ہی کا نتیجہ ہے کہ کتاب میں کئی فکری تناقض پائے جاتے ہیں۔ جیسے کہ ریاست سے بغاوت کرنے والے نواب خیر بخش مری اور مفاہمت کرنے والے میر ہزار خان مری کو یکساں پلڑے میں رکھا گیا ہے۔ بلوچوں کی حریت مزاجی کو بھی واضح لکھا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ سر جھکانے کی بجائے سر کٹانے کو فوقیت دیتے ہیں، ساتھ ہی انہیں ریاست سے مفاہمت کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ ریاست کی بلوچ عوام کے ساتھ نارروائی کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی انہیں اس ناروائی کے ساتھ گزارہ کرنے کی نصیحت بھی کی گئی ہے۔ بالخصوص اضافہ شدہ پہلا اور آخری باب مطالعہ پاکستان کی کسی عمومی کتاب کا حصہ لگتے ہیں۔
اور پھر صدرِ پاکستان، وزیراعظم پاکستان سے کتاب کا فلیپ لکھوا کر اس کی "سچائی" اور عوامی پن کو ویسے ہی مشکوک بنا دیا گیا ہے۔ کتاب کی جس طرح اسلام آباد میں تقریبِ رونمائی رکھی گئی، وہ اسے کسی طرح عوامی کتاب ثابت نہیں کرتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس کی رونمائی کوہلو کاہان میں، تھڈری میں رکھی جاتی!!
کتاب آفسٹ پیپر پر نہایت اہتمام سے شائع ہوئی ہے۔ بہت ساری تصاویر شامل کی گئی ہیں، جن میں سے کچھ تصویریں بہت اہم اور تاریخی ہیں، کچھ محض ذاتی نوعیت کی۔ اس تذکرے کا مقصود یہ ہے کہ اس سارے اہتمام سے کتاب کی قیمت پر فرق پڑتا ہے جس کا سارا بوجھ قاری پہ ڈال دیا جاتا ہے۔ اس لیے اس سب کے نتیجے میں محض ڈھائی سو صفحات کی کتاب کی قیمت 2800 روپے رکھی گئی ہے جو رعایت کے ساتھ بھی پندرہ سو، دو ہزار سے کم میں نہیں ملے گی۔ جو ایک عام قاری کے لیے کوئی عام قیمت نہیں۔ لازم تھا کہ اس کا ایک سستا اسٹوڈنٹ ایڈیشن بھی چھاپا جاتا۔
قطع نظر اس کے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب ایک بار مطالعے کے قابل ضرور ہے۔ اس میں ہماری سیاسی تاریخ کے کئی اہم گوشے بیان ہوئے ہیں۔ جن سے اتفاق و اختلاف کے کئی پہلو نکل سکتے ہیں۔ اس لیے میری بلوچ قاری سے گزارش ہو گی کہ آپ خواہ اس کتاب کو مکمل رد کر دیں مگر یہ کام کتاب پڑھ کر کریں، بھلے کسی سے ادھار لے کر ہی پڑھیں۔
الغرض اس کتاب کو رد کیا جا سکتا ہے مگر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
(عابدمیر)
اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ ہزار خان کی شخصیت سے اتفاق کرتے ہیں یا اختلاف یہ آپ کا حق ہے، لیکن مجھے توقع ہے کہ آپ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکیں گے کہ اس داستان کا رقم ہو نا ضروری تھا، آنے والی نسلوں کے لیے اور آنے والوں زمانوں کے لیے۔ یہ کتاب اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ میر ہزار خان، بلوچ تاریخ کا ایک نمایاں کردار تھے ۔ جن کی جدوجہد کے تغیر و تبدل کو مدنظر رکھ کر پاکستان بالخصوص بلوچستان کی جدید تاریخ بھی مرتب کی جاسکتی ہے۔
Book Attributes | |
Pages | 280 |