زندان خانے میں بِلکتی ہوئی زندگی کی ترجمان
غالباً ستمبر 1970ء کا پہلا ہفتہ تھا کہ جیل میں اسیر طلبہ نے صبح صبح شور
مچایا، ’’راجہ بھی آ رہا ہے‘‘ انھوں نے اخبار سے اس کی گرفتاری کی خبر
پڑھی تھی۔ شام کو اسے بھی ہمارے ساتھ ’’سی کلاس‘‘ کی تنگ ترین کوٹھری میں
دھکیل دیا گیا۔ اب تکلّف کی کوئی گنج..
برٹرینڈ رسل کو آپ کے فلسفے کی تاریخ کا آخری بڑا فلسفی
قرار دے سکتے ہیں۔ زندگی میں ہی اس کی شہرت تمام براعظموں تک پھیل گئی تھی
اس کی شہرت صرف علمی اور فکری حلقوں تک محدود نہ رہی تھی بلکہ ارباب ادب و
فن اور تعلیم یافتہ عوام تک بھی پہنچی تھی۔ رسل کی تحریروں کو چاہنے والوں
کے علاوہ ان کی مخالفت ..
For the Reader:So what took me so long to get this book started?A good question!Firstly, I am still struggling with myself, having lived in the “semi” limelight for most of my life. Partly as the daughter of a great poet; partly as the sister of a great painter; partly on management posts of the onl..
راجہ انور کی کتاب ’’قبر کی آغوش‘‘ کے لیے تقریب پنجاب یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ جس کی صدارت ڈاکٹر مجاہد کامران نے کی تھی۔ اب اس کی دوسری کتاب ’’بَن باس‘‘ کی تقریب بھی پنجاب یونیورسٹی میں ہوئی ہے۔ یہ تقریب کہیں اور بھی ہو سکتی تھی۔ یہ راجہ انور کی اپنی مادرِ علمی کے ساتھ وابستگی ہے کہ وہ یہاں پُرانے زم..
ایک زندگی ایک عجیب جستجو اور تگ و دو
کا میدان ہے، جس میں انسان تمام وقت زندگی کے کشمکش میں مصروف عمل ہونے کے
بعد جب ماضی پر طائرانہ نگاہ ڈالتا ہے ، تو ان تمام سر گذشتہ کی محض سراب
کی ماند یادداشتیں باقی رہ جاتی ہیں۔ لاکھوں انسان اپنی یادداشتوں کے
داستان اپنے ساتھ لیکر، کسی بھی ریکارڈ ..
پاکستان کے صحافتی منظرنامے کے موقر ترین عینی شاہد محمود شام کی خودنوشت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " شام بخیر " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "شام بخیر" پاکستان کی غیر ایڈٹ شدہ تاریخ کا ماسٹر پرنٹ ۔ ۔۔۔۔ "شام بخیر"اقتدار کی راہداریوں کی "واردات ہائے بے قلب"۔۔۔۔ "شام بخیر" جو دیکھا وہ جہاں اور جیسی کی بنیاد..
زرتشت نے کہا، ’’آج کی باتیں کل کی امانت ہیں، ان سب کو اکٹھا کر لو۔‘‘
ابا کو گئے آج پونے تین برس ہو گئے۔ جس مشن یا مشین کو وہ چلا گئے تھے اس
نے رکنے کا نام نہیں لیا۔ ان کے بک کارنر کو پچاس برس پورے ہوئے، اگلے پچاس
برس کا عزم کیے چلنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اہلِ قلم حضرات نے ابا کے چلے
جانے پر اپ..
رسیدی ٹکٹ امرتا پریتم کی آپ بیتی ہے جس میں انہوں نے ناول کی ہئیت میں اپنی داستان زندگی بیان کی ہے۔ یہ داستان زندگی کہیں ڈائری کی صورت میں ہے اور کہیں ان کی نظموں کی صورت میں۔ ڈائری کے اقتباسات وہ شامل ہیں جن میں انہوں نے اپنے بیرونی ممالک کے قیام کی روداد لکھی ہے۔ اس آپ بیتی کے مطالعے سے امرتا کے زہ..