” کہاں سے لاؤں انھیں" مظہر محمود شیرانی کی زندگی میں آنے والے انہی جیسے باکمال
لوگوں کے خاکوں کا مجموعہ ہے۔ یہاں ہمیں کہیں اختر شیرانی ، رشید حسن خاں ، احمد ندیم قاسمی، مشفق خواجہ نظر آتے ہیں تو کہیں ہماری ملاقات حکیم نیر واسطی ،اکرام حسن خاں جیسے اصحاب سے ہوتی ہے۔ کچھ جانے پہچانے تو کچھ ان..
بڑے لکھاری ہمیشہ عام لوگوں کی کہانیاں لکھتے ہیں اور عام لوگ بڑے لوگوں کی
کہانیاں پڑھتے ہیں۔ یہ کوشش عام مگر فہیم لوگوں کو ایک عام شخص کی کہانی
پڑھانے کی ہے جس کے مختلف حصوں کے ساتھ وہ زیادہ قربت محسوس کر سکیں گے اور
اُمید ہے کہ اپنے تعصبات، میلانات اور رویوں کو الگ انداز میں جان..
یہ ایک شان دار اور بے مثال خودنوشت ہے جس میں کھرا سچ ہے، ایک ایسا سچ جس
کی لپیٹ میں علی اکبر ناطق کے آباؤ اجداد، اُس کی اپنی ذات اور زمانہ بھی
آتا ہے۔ اس کی نثر پنجاب کی دھرتی کی طرح زرخیز اور پُرمایہ ہے۔ اس
داستانِ حیات میں فکشن اور کہانی جیسی دل فریب دل چسپی ہے۔ یہ خودنوشت
رنگین قصّوں ک..
خوشونت سنگھ نے اپنے ان تعزیت ناموں میں ان تمام لوگوں کی زندگی کے بارے میں اپنے خیالات اور تاثرات کا اظہار کیا ہے جن سے ان کی زندگی کے کسی موڑ پر ملاقات ہوئی اور ان سے واسطہ پڑا، ان لوگوں میں ان کے قریبی دوستوں کے علاوہ وہ لوگ بھی شامل ہیں جن سے ان کا صحافتی اور سفارتی ایام کے دوران واسطہ پڑا ، خوشون..
’’مکتبِ عشق‘‘ سیّد شبیر احمد شاہ کی محبّت اور عقیدت سے گُندھی تحقیق ہے،
جس میں انھوں نے پنجاب کے عظیم صوفیا اور شعرا کے حالاتِ زندگی اور ان کے
نمونۂ کلام کو سامنے لانے کی نہایت عمدہ کوشش کی ہے۔ یہ مضامین کا مجموعہ
نہیں، گلدستہ ہے کیوںکہ اس میں مختلف رنگوں، رُتوں اور ذائقوں کے پھول ہیں
جن کی..
ظفر محمود، کیڈٹ کالج حسن ابدال اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے
کے بعد 1976ء میں ڈی ایم جی، حال (PAS) گروپ سے سرکاری نوکری کا آغاز۔
ملازمت کے دوران1984ء میں مانچسٹر یونی ورسٹی، 1987ء میں آرتھر ڈی لٹل
انسٹی ٹیوٹ،بوسٹن، 1989ء میں سٹیٹ ڈِپارٹمنٹ، واشنگٹن اور 2007ء میں ہارورڈ
یونیورسٹی ..