Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Choti Bari Kahaniya - چھوٹی بڑی کہانیاں

Choti Bari Kahaniya - چھوٹی بڑی کہانیاں
-36 %
Choti Bari Kahaniya - چھوٹی بڑی کہانیاں
Rs.800
Rs.1,250

جنوبی رُوس، بحیرۂ آزوف کے شہر تاگانروگ، 17 جنوری 1860ء عظیم پرولتاری انقلاب سے 57 سال پہلے غربت زدہ گھر کے پانچ بچّوں میں تیسرے نمبر پر چیخوف کی پیدائش۔ دادا کھیت مزدور، باپ اشیائے خور و نوش فروش۔ ماں نہایت مہربان، باپ سخت گیر اور کٹ حجّت مذہبی۔ اولاد پر ہاتھ اٹھانا معمول۔ دُکان میں ہاتھ بٹانے اور چرچ میں مقدّس نغمات سرائی کے لیے باپ کا اصرار اور بادلِ ناخواستہ بیٹے کی آمادگی۔ یونانی طلبہ کے اسکول میں ابتدائی تعلیم کے بعد مقامی ہائی اسکول (1869ء) میں داخلہ، عمر کے سولھویں اور اسکولی تعلیم کے آخری تین سال پہلے ماں باپ سے جدائی اور تنہائی۔ کاروباری نقصان اور دیوالیا ہو جانے پر ایمان دار اور غیر تجارتی وضع کے باپ کی گھر بار سمیٹ کے ماسکو منتقلی بلکہ فرار اور تنِ تنہا چیخوف کا تعلیمی سفر اور زندگی کشی کا عزم۔ نصاب سے زیادہ دوسرے مطالعے کا جنون تھا۔ ٹیوشن کرکے کسی نہ کسی طور تعلیمی سلسلہ برقرار رکھا اور 19 سال کی عمر میں گریجویشن کر لیا۔ اسکول کے زمانے ہی سے تخلیقی کونپلیں پھوٹنے لگی تھیں۔ 1884ء میں ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر لی۔ اس عرصے میں خاندان کی کفالت بھی ذمّے رہی۔ طب سے آمدنی ناکافی تھی۔ گھر چلانے کے لیے فری لانس صحافت اور ادبی کام کی مشقّت از بس لازم تھی۔ لکھنا محض شوق نہیں، اب ایک ضرورت بھی تھا۔ 1886ء میں مشہور ناول نگار دمِتری گریکو رووچ نے چیخوف کو نئی نسل کے اوّل درجے کا فن کار قرار دیا تھا۔ 1888ء سے 1904ء تک مختلف جرائد میں چیخوف نے پچاس سے زائد کہانیاں لکھی تھیں۔ ان کہانیوں نے بعد میں بین الاقوامی شہرت حاصل کرلی اور بین الاقوامی ادب کوئی چیز ہے تو چیخوف کی یہ کہانیاں بےشک اس کا جزو لازم ہیں۔ لیو ٹالسٹائی چیخوف کے بہت قائل تھے اور ٹالسٹائی کا فرمودہ ہے کہ چیخوف ایک لاثانی فن کار ہے، زندگی کا فن کار۔ اس کی تخلیقات سارے عالمِ انسانیت کے لیے ہیں۔ چیخوف کے لیے مشہور ہے کہ اسے مختصر اور مناسب لفظوں میں مدّعا بیان کرنے پر قدرت تھی۔ کہتے ہیں وہ زندگی کی سطح سے نیچے جاکے حقائق تلاش کرتا تھا۔ اسے اپنے کرداروں کے خفیہ ارادے فاش کردینے کا ہنر آتا تھا۔چیخوف کے زمانے میں عظیم رُوسی انقلاب کا خمیر تیار ہو رہا تھا اور چار سُو ایک جنگ و جدل کا منظر تھا۔ تیرہ سال بعد یہ تاریخ ساز واقعہ رونما ہوا چاہتا تھا مگر چیخوف کو بڑی جلدی تھی۔ مسیحااپنی مسیحائی نہ کرسکا۔ 14 / 15 جولائی 1904ء ، 44 سال کی عمر میں ایک رات چیخوف کی جسمی شکست و ریخت اپنے انجام کو پہنچی۔ کاش! ہر آدمی کا انجام ایک جیسا نہ ہوا کرتا۔

Book Attributes
Pages 448

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good
Tags: translated