- Writer: Rabisankar Bal
- Category: Urdu Adab
- Pages: 521
- Stock: In Stock
- Model: STP-1988
- ISBN: 978-969-731-011-1
مصنف ربی سنکر بال نے اس ناول کو منٹو کی تحریر کہا ہے جو کسی طرح اس کی دسترس میں آگئی تھی۔ یہ ناول منٹو کو ہی لکھنا چاہے تھا، شایدمنٹو جیسا خود آگاہ غالب کو ہم سب سے زیادہ سمجھ سکتا تھا، مگر منٹو بت تراش نہیں تھا اور وہ اپنی بت شکنی کا تیشہ غالب اور اپنے آپ پر بھی برسانے سے نہ رکتا۔ دوزخ نامہ ان دو شخصیتوں کی زندگیوں کا مرقع ہے جوخود اپنے اپنے وقت میں ’ہندوستان‘ (برِ صغیرِ پاک و ہند) قرار دیے جاسکتے ہیں۔ غالب اورمنٹو اپنے اپنے عہد کی دانش کے عذاب سے باخبر تھے اور دونوں نے اسی لیے آشوبِ آگہی کے آگے خطِ ایاغ کھینچ لیا تھا۔
انعام ندیم نے دلسوزی سے دوزخ نامہ کو اردو میں منتقل کیا ہے اور ایسی خوش سلیقگی کے ساتھ کہ کہیں سے ترجمہ کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔
ربی سنکر بال نے بجا طور پر غالب اور منٹو کا عالمِ عطف دوزخ کو قرار دیا ہے۔ دوزخ میں غالب اورمنٹو ایک دوسرے کو اپنا اپنا افسانہ سنا رہے ہیں جو دلِ بے دماغ کی گفتگو سے بھی نازک تر ہے۔ غالب اور منٹوکی زندگیوں کے وہ بہت سارے کردارجن کی کچھ جھلکیاں کبھی ہمیں ان کی تحریروں میں نظر آئی تھیں، ربی سنکر بال کے ناول میں ہم سے اور قریب آگئے ہیں۔ یہاں غالب کی امراوَ بیگم بھی ہیں اور ان کے والد بھی، کلو داروغہ بھی ہے اور بہادر شاہ ظفر بھی، ولیم فریزر بھی ہے اور نواب شمس الدین بھی۔ غالب کی ڈومنی بھی ہے اورایک محبوبہ شاعرہ المتخلص بہ ’ترک‘بھی۔ منٹو کی طرف دیکھیے تو کون ہے جو نہیں ہے۔لاہور اپنے کرشن چندر، بیدی، باری علیگ کے ساتھ، بمبے فلم انڈسری کا طلسمات، صفیہ اوراس کے ساتھ ساتھ عصمت جسے ربی سنکر بال نے تقریبا ًمنٹو کی محبوبہ ثابت کردیا ہے۔ جہاں غالب نے اپنی زندگی کی تصویر کو صوفیانہ حکایات سے رنگین بنایا ہے، یہاں تک کہ رومی کا ان سے ملاقات کے لیے دوزخ میں آنا تک بیان کیا ہے، منٹو نے ان افراد کو اپنی یادداشت کا حصہ بنایا ہے جنھوں نے اسے زندگی کے معانی سے آشنا کیا۔ ناول میں بنگالی مصنف نے غالب کے سفرِ کلکتہ کے بیان میں کمالِ فن سے ہمیں ’نازنیں بتانِ خودآر‘ سے آگے دیکھنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔
اپنی اپنی مشقِ فنا کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے غالب اور منٹو دونوں کی زندگیاں عبرت انگیرہوگئی تھیں، مگر جانے دیجیے، غالب تو اس سے زیادہ کی توقع رکھتے تھے اور منٹو کی لاپروائی کے لیے تو غالب کا یہ آفاقی مصرعہ ہی بہت تھا:
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
Book Attributes | |
Pages | 521 |