-28 %
Dune - Urdu Translation - ڈیون
- Writer: Frank Herbert
- Category: Novels
- Pages: 600
- Stock: In Stock
- Model: STP-12583
Rs.1,800
Rs.2,500
Urdu Translation of Dune - Novel
Translation By Shaukat Nawaz Niazi
’’ڈیون‘‘ سائنس فکشن میں ایک سنگِ میل ہے۔ فرینک ہربرٹ نے اس ناول کے منظرنامے میں دانستہ طور پر ٹیکنالوجی سے احتراز برتا، تاکہ مستقبل کے انسانی معاشرے میں ٹیکنالوجی کے بجائے انسانیت کی سیاست کو مرکزِنگاہ بنایا جا سکے۔ مثلاً ناول کی کہانی میں بیان کردہ قبل از تاریخ کا اہم ترین مقام ’’بٹلیرین جہاد‘‘ کے نام سے پیش کیا گیا ہے جس میں تمام روبوٹ اور کمپیوٹر تباہ کر دیے گئے اور یوں ناول میں سائنس فکشن کے ان عمومی عناصر کو ہٹا کر اس کی جگہ انسانی احساسات اور باہم روابط پر توجّہ مرکوز کی گئی۔ ’’ڈیون‘‘ کا بنیادی پس منظر انسانوں اور ان کے ترتیب کردہ اداروں کے تغیّر کا غماز ہے۔ 2000ء میں سائی فائی چینل کے لیے ترتیب شدہ مِنی سیریز کے ہدایت کار جان ہیریسن (John Harrison) نے ’’ڈیون‘‘ کو ’’انسانی کیفیت اور اس کی اخلاقی کشمکش‘‘ کا آفاقی اور لازمانی عکس قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں:
’’اکثر لوگ ’’ڈیون‘‘ کو سائنس فکشن قرار دیتے ہیں۔ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میں اسے کلاسیکی داستان گوئی میں ایک اساطیری مہم جوئی کا بیان سمجھتا ہوں... جو افسانوی یا روایتی انداز میں کنگ آرتھر یا کسی بھی مسیحا کی کہانی سے مختلف نہیں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ کہانی مستقبل میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔ آج یہ کہانی اس وقت سے کہیں زیادہ موزوں ہے جس وقت فرینک ہربرٹ نے اسے تحریر کیا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں دنیا میں صرف دو عظیم عالمی قوتیں تھیں جو باہم برسرِپیکار تھیں۔ آج ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں، وہ اس سے کہیں زیادہ جاگیردارانہ یا کاروباری اندازمیں متفرق ہو چکی ہے جو ہربرٹ کی کائنات میں موجود الگ الگ سیاسی خانوادوں، طاقت کے مراکز اور کاروباری مفادات سے کہیں زیادہ مماثل ہے۔ یہ تمام عوامل صرف ایک جنس کی خاطر باہم مربوط ہیں جو ان سب کے لیے ناگزیر ہے۔‘‘
’’ڈیون‘‘ کو حقیقی اور تصوّراتی سائنس فکشن کا امتزاج بھی کہا جاتا ہے کیونکہ، ’’ماحولیات پر توجّہ حقیقی عنصر ہے جبکہ علم البشر اور روحانی صلاحیت تصوّراتی عناصر ہیں۔‘‘ حقیقی عناصر میں آراکیس کی ماحولیات، سسپنسر ٹیکنالوجی، ہتھیار اور جنگی سازوسامان اور آرنی تھاپٹر وغیرہ شامل ہیں جبکہ دوسری جانب مذاہب، جسمانی اور ذہنی تربیت، ثقافت، سیاست اور نفسیات تصوّراتی سائنس فکشن میں شامل ہیں۔
فرینک ہربرٹ کے مطابق پال کے مسیحانہ کردار کی تشکیل کے لیے انھیں کنگ آرتھر سے تحریک ملی۔ توانائی کے ذرائع، تیل، صاف ہوا، پینے کے پانی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی بنا پر دیگر اشیائے ضروریہ کی کمی کو آراکیس پر پانی کی قلّت سے مماثلت دی گئی ہے۔
ناول نگار اور فرینک ہربرٹ کے بیٹے اور ان کے سوانح نویس برائن ہربرٹ لکھتے ہیں:
’’ڈیون‘‘ جانی پہچانی دیومالائی داستانوں کا جدید اور عصری امتزاج ہے؛ ایک ایسی کہانی ہے جس میں ریت میں زیرِ زمین رہنے والے عظیم کیڑے میلانج نامی ایک قیمتی خزانے کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ حیات بخش مادہ بشمول دیگر تیل کے محدود وسائل کا استعارہ ہے۔ آراکیس کے سیارے پر یہ خوفناک دیوہیکل کیڑے پرانی داستانوں کے اژدھوں کی مانند ہیں جن کے ’’لمبے دانت‘‘ ہیں اور جن کے دہانوں سے ’’دارچینی کی لپٹیں‘‘ نکلتی ہیں۔ یہ عکّاسی حیرت انگیز طور پر نامعلوم انگریز شاعر کی بیوولف (Beowulf) نامی داستان سے مماثلت رکھتی ہے جس میں ایک خوفناک آتشیں اژدھے کا ذکر ہے جو سمندر کنارے، پہاڑیوں کے نیچے غاروں میں ایک عظیم الشان خزانے پر قابض بیٹھا تھا۔‘‘
فرینک ہربرٹ کے اس کلاسیک ناول میں صحرا کو ریت کے ایک بحرِ بےکراں کی مانند پیش کیا گیا ہے جس کی تہ میں عظیم الجثہ ریتی کیڑے پائے جاتے ہیں اور جو شائی حلود (Shai-hulud) کی پراسرار اور مخفی دنیا ہے۔ ریت کے ٹیلے سمندروں میں متلاطم لہروں کی مانند ہیں اور ریت کے اس سمندر میں خوفناک طوفان اُٹھتے ہیں جو شدید خطرات اور تباہی و بربادی کا باعث ہوتے ہیں۔ آراکیس پر ریت کے اس سمندر میں تمام زندگی کا منبع میکر (شائی حلود) ہیں، عین اسی طرح جیسے زمین پر یہ مانا جاتا ہے کہ تمام زندگی کا ارتقا سمندر سے ہوا ہے۔ متوازی اشاروں اور شاندار استعاروں کے استعمال اور موجودہ حالات کو نئی دنیاؤں پر قیاس کرتے ہوئے فرینک ہربرٹ نے ایک ایسی کائنات ترتیب دی جو پہلی نظر میں مکمل طور پر نامانوس دکھائی دیتی ہے لیکن بغور جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈیون کی دنیا اس دنیا سے اتنی مختلف نہیں جسے ہم جانتے ہیں... نہ ہی اس کتاب کے کردار ہمارے لیے اتنے انجان اور نامانوس ہیں جن سے ہم آگاہ ہیں۔
’’ڈیون‘‘ کے ہر باب کی ابتدا ایک سرِحرف (Epigraph) سے ہوتی ہے جو ناول کے ایک کردار، شہزادی ایرولان، کی تحریروں کے اقتباسات پر مبنی ہیں۔ ڈائری کے مندرجات، تاریخی حوالوں اورتبصروں، سوانح عمری، کہاوتوں اور فلسفیانہ اقوال کی شکل میں یہ مختصر قطعات فرینک ہربرٹ کی پیچیدہ تصوّراتی دنیاؤں کی داستان اور اس کے بنیادی موضوعات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے مفہوم عطا کرتے ہیں، تشریح و توضیح کرتے ہیں اور سیاق و سباق اور دیگر تفصیلات پیش کرتے ہیں۔ یہ قطعات ابتدائیے کا کام کرتے ہوئے قاری کو مطالعے پر مجبور کرتے ہیں تاکہ اس سرِحرف اور باب کے متن میں موجود خلا کو پورا کیا جا سکے۔ یہ قطعات قاری کو یہ احساس بھی دلاتے ہیں کہ وہ جس دُنیا کے بارے میں پڑھ رہے ہیں وہ اس داستان سے بھی کہیں دُور ہے کیونکہ ایرولان پال کی ایک مثالی اور تصوّراتی شبیہ پیش کرتی ہے کہ جیسے وہ ماضی کی یادوں کا حصّہ بن چکا ہو۔ فرینک ہربرٹ کے بیٹے اور بقیہ کتابوں کے مصنف برائن ہربرٹ نے لکھا، میرے والد نے مجھے بتایا کہ یہ کتاب پڑھتے ہوئے تم اس کتاب کی کوئی بھی پرت، کوئی بھی جہت دریافت کر سکتے ہو اور پھر دوبارہ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی توجّہ ایک مکمل طور پر مختلف جہت پر مرکوز کر سکتے ہو۔ کتاب کے اختتام پر میرے والد نے دانستہ طور پر کتاب کی بُنت کے کچھ دھاگے ڈھیلے چھوڑ دیے تھے اور کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ کہانی سے نکلتے ہوئے اس داستان کے کچھ ٹکڑے یا کچھ ریشے قاری کے ساتھ جڑے رہیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں وقتاً فوقتاً اس کہانی کو دوبارہ پڑھنے، اس دُنیا میں واپس لوٹنے پر خود کو مجبور پائے۔
’’ڈیون‘‘ کو وسیع منظرنامے میں سیارہ جاتی ماحولیات کے موضوع پر پہلا ناول گردانا جاتا ہے۔ فرینک ہربرٹ کو امید تھی کہ اس ناول کو ’’ماحولیاتی آگہی کی راہنما کتاب‘‘ کے طور پر لیا جائے گا اور مزید یہ کہ کتاب کا عنوان ’’ڈیون‘‘ ادائیگی میں کسی حد تک صوتی طور پر انگریزی لفظ ’’ڈُوم‘‘ (Doom) یعنی مکمل تباہی یا فنا سے ہم آہنگ ہے۔ 1968ء میں اپنے وقت کے مقبول ترین امریکی جریدے ’’ہول ارتھ کیٹلاگ‘‘ (Whole Earth Catalog) نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ڈیون، بھرپور تخیلاتی دنیا میں ایک ایسے شدید اور غضبناک ماحولیاتی نظام کی تصویرکشی کرتا ہے جو کسی سماج کی ہم آہنگی اور ربط کے لیے ناگزیر ہے۔‘‘
1962ء میں کیمیاوی مادوں اور کیڑے مار ادویات کی پیداوار اور غیرذمہ دارانہ استعمال اور ان کے مضرِصحت اثرات پر ریچل کارسن کی تحقیقاتی کتاب ’’سائلنٹ سپرنگ‘‘ (Silent Spring) کے بعد سائنس فکشن لکھاریوں نے ماحولیاتی تبدیلی اور ان کے مضمرات کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنانا شروع کر دیا۔ ’’ڈیون‘‘ اس سلسلے کی ابتدائی کڑیوں میں سے ایک تھی جس نے 1965ء میں آراکیس کے پیچیدہ ماحولیاتی اور حیاتیاتی نظام کی تصویرکشی کی؛ جس میں عظیم الجثہ ریتی کیڑوں (جن کے لیے پانی سمِ قاتل ہے) سے لےکر چھوٹے چوہا نما صحرائی جانوروں کا بیان ہے جنھوں نے خود کو پانی کی محدود مقدار کے ساتھ زندہ رہنے کے قابل بنا لیا۔ پیچیدہ اور انوکھے ماحولیاتی نظام کی تصویر کشی میں ’’ڈیون‘‘ دوسرے سائنس فکشن مصنّفین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا اور یوں’’اے ڈور اِن ٹو اوشن‘‘ (A Door into Ocean) (1986ء) اور ’’ریڈ مارس‘‘ (Red Mars) (1992ء) جیسے مقبول ترین سائنس فکشن ناولوں کے لیے ہراول کا کام کیا۔ متعدد ماہرینِ ماحولیات کا خیال ہے کہ ایک پیچیدہ اور تقریباً زندہ نامیاتی جسم کے طور پر ایک سیارے کی تصویر کشی کرتے ہوئے ناول ’’ڈیون‘‘ کی مقبولیت اور اسی زمانے میں خلا سے لی گئی زمین کی پہلی تصاویر کی اشاعت ماحولیاتی تحاریک پر اثرانداز ہوئی، حتیٰ کہ کچھ ماہرین بین الاقوامی یومِ ارض (International Earth Day) کی ابتدا کی بنیادی وجوہات میں بھی ’’ڈیون‘‘ کو شامل کرتے ہیں۔
اگرچہ ماحولیات سے متعلق سائنس فکشن کو حقیقی مقبولیت 2010ء کی دہائی کے بعد دنیا میں پیش آنے والے حقیقی موسمیاتی تغیّرات کے بعد ملی تاہم ماضی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے ناقدین کی متفقہ رائے ہے کہ فرینک ہربرٹ (ڈیون)، جے جی بالارڈ (دی ڈراؤنڈ ورلڈ) (The Drowned World) اور کِم سٹینلی رابنسن (مارس سیریز کے تین ناول) (Mars Trilogy) اس صنف میں اہم ترین سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
(شوکت نواز نیازی)
Book Attributes | |
Pages | 600 |
Tags:
translated