بیسویں صدی کے عظیم ادیب و مفکر کے عہد آفریں تنقیدی مضامین---
ایک شاعر تو کئی زمانوں میں بیک وقت جی سکتا ہے، کہ اس کا تخلیقی تجربہ ، وقت کی معروف عملی تقسیم کو پاٹ کر، سابقہ اور آئندہ لمحوں کو لمحہِ موجود میں زندہ محسوس کر لیتا ہے، لیکن کیا نقاد بھی ایسا کرتا ہے یا کر سکتا ہے؟ ایک علمی سرگرمی کے طور پر تنقید اپنے زمانے کے اہم سوالوں سے جوجھتی ہے۔ جس کا ایک طور تو معاصر ادب کی تفہیم و تعبیر سے لے کر موجود سماجی اور ثقافتی مسائل کو ادب اور علوم کی راہ سے سمجھنے کی کوشش ہے۔ یہ کوشش جتنی سرعت سے اپنے معاصر ادب و ثقافت سے ربط ضبط قائم کرتی ہے، اتنی ہی تیزی سے آنے والے زمانوں کے لیے اجنبی بنتی چلی جاتی ہے۔ تخلیقی ادب ،سماجی، سیاسی اور نفسیاتی مسائل سے پرے انسان کے بطون میں جھانک لیتا ہے اور کچھ ایسی بصیرتیں اور حساسیت دریافت اور کبھی کبھی تخلیق کر لیتا ہے، جو محض اپنے زمانے تک محدودنہیں ہوتیں۔ اسی لیے تخلیقی عمل ایک برگد کی مانند کئی صدیوں کی بہاریں دیکھ لیتا ہے، ادھر تنقید کسی علمی پس منظر سے پھوٹے یا ادبی نظریہ سازی سے نمو پائے، خوش نما چمکتے رنگوں کے پھول جیسی ہوتی ہے، مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں۔ اب ایسے عالم میں انگریزی تنقید کے اردو تراجم کی نئی اشاعت کی کیا منطق ہو سکتی ہے۔دیکھیے سبھی پھول مرجھاتے نہیں، کچھ پھل میں بدل جاتے ہیں۔
ٹی ایس ایلیٹ ان نقادوں میں سے ہے، جنھوں نے صرف انگریزی ادب کی تفہیم و تعبیر سے ادبی منظر نامے میں بڑی تبدیلی پیدا نہیں کی۔ اردو تنقید میں کوئی دو عشرے (بیسویں صدی کا پانچواں اور چھٹاعشرہ) گزرے ہیں، جب نمایاں ترین ناقدین میں ایلیٹ کے مضامین اور ادبی تصورات زیرِ بحث رہے۔ علمی دنیا کا سفر ٹھہرا ہوا نہیں ہوتا، اردو کے جسم و جاں بھی اس کے بعد کئی تنقیدی رجحانات کی رہ گزر بنے ہیں۔ مغربی تھیوری کے ردو قبول کا شور و غوغا تو کوئی پرانی بات نہیں۔ بھلے ہی مابعد جدید تشکیک پسندی نے حقیقت اور مہابیانیے کی ردِ تشکیل سے موضوعی اور عارضی سچائیوں تک کا راستہ سجھا دیا ہو،اور تنقید ادبی نظریوں کی خوردبینوں سے مرکوز اختصاص پسندی میں تحلیل ہوئی جا رہی ہو، ایسے عالم میں ادب، سماج، روایت اور ثقافت جیسے مظاہر کو ایک وحدت میں دیکھنے والی غالباً آخری بڑی شخصیت ایلیٹ پر توجہ جاتی ہے۔ جس نے رومانویوں کی مصنف پسندی کی حدود کو واضح کیا اور منتشر سیاسی صورتِ حال میں شخصیت کی شکست و ریخت کے زمانے میں روایت سے جڑکر شیرازہ بندی کی راہ دکھائی۔ ایلیٹ ہمیں زبان کی احساسی سطح کا شعور دیتا ہے اور شاعری کی سماجی اہمیت واضح کرتا ہے۔ اس کا ایک قدم حال اور دوسرا ماضی میں ہے، اسی لیے اس کے تنقیدی پھل میں وہ ذائقہ ہے جو صدیوں سے بہتے دریا کی مٹی سے حاصل ہونے والی ذرخیزی کا نتیجہ ہے۔ پھر اس تنقید کو اردو میں ڈھالنے والی وہ شخصیت ہے، جو ترجمے سے ہونے والی لسانی افزودگی اور علمی نشووارتقا سے واقف ہے۔ جمیل جالبی صاحب لائقِ تحسین ہیں، جن کی مساعی سے اردو کے دریائے تنقید میں کئی نئے چشموں سے ثروت مندی پیدا ہوئی۔
Book Attributes | |
Pages | 304 |