- Category: History Books
- Pages: 368
- Stock: In Stock
- Model: STP-2116
- ISBN: 978-969-662-269-7
ترک قوم تاریخِ عالم میں خاص اہمیت کی حامل ہے۔ ترک
قبائل، جن کا نسب حضرت نوحu کے بیٹے یافث سے جا ملتا ہے، قدیم اقوام کی
فہرست میں شامل ہیں۔ اسلام سے قبل کے ادوار میں ترکوں نے آسیائے میانہ
(وسط ایشیا) سے نکل کر دُنیا کے اکثر حصوں میں عظیم ریاستیں تشکیل دیں۔ جب
ترکوں میں لطفِ خداوندی سے ایمان کا نُور داخل ہوا تو ان میں جسمانی قوت کے
ساتھ ساتھ روحانی و ایمانی طاقت کا بھی اضافہ ہوا، جس کے بعد بہت کم عرصے
میں انھوں نے خود کو شہرت و عظمت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور سینکڑوں
علما، شعرا، سلاطین و فاتحین کو جنم دیا۔
ترکوں کی ان عظیم شخصیات میں ایک نام ارطغرل غازی کا سامنے آتا ہے جس نے
چار سوخیموں کے ساتھ اناطولیہ کی طرف سفر کر کے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا
اور بہت کم عرصے میں ہزاروں کی تعداد میں غازیانِ اسلام کا لشکر جمع کر کے
تاتاریوں اور بازنطینیوں کے خلاف قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ اگرچہ ارطغرل
غازی کا نام عثمانی سلاطین و خلفا میں نہیں آتا، لیکن ارطغرل کو یہ
امتیاز حاصل ہے کہ اس کی اولاد سے 37 سلاطین پیدا ہوئے اور 1299ء سے لے کر
1922ء تک تین براعظموں اور سات سمندورں پر حاکم رہے۔
پڑھنے والوں کے لیے یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ارطغرل غازی کی
اولاد کا برصغیر سے بھی عرصۂ دراز تک تعلق رہا ہے۔ ارطغرل کی ساتویں نسل
سے عثمانی سلطان محمد فاتح کے بھائی شہزادہ یوسف نے جنوبی ہندوستان کے
علاقے بیجاپور [Bijapur] میں عادل شاہی ریاست [Adil Shahi Dynasty] کی
بنیاد ڈالی، جو دو سو سال تک قائم رہی۔ ظہیر الدین بابر نے جب ہندوستان پر
یورش کی تو عثمانی خلیفہ و سلطان سلیم اوّل [Selim I] نے کئی مشہور سپہ
سالاروں کو توپ اور لشکر کے ساتھ مدد کے لیے روانہ کیا۔ بعدازاں برصغیر کے
مسلمانوں نے انگریز دَور میں تحریکِ خلافت کی صورت میں عثمانی خلافت کے
دفاع میں ایک عظیم تحریک چلائی۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران ترکی سیریل دیریلیش ارطغرل [Diriliş: Ertuğrul]
کے سبب جہاں دُنیا بھر میں ایک فکری انقلاب دیکھنے میں آیا، وہیں پاکستان
میں بھی تاریخ کے اس گمنام ہیرو کا نام دوبارہ زندہ ہوا اور ہر خاص و عام
میں اس کی حیات اور کارناموں کے متعلق پڑھنے اور جاننے کا شوق پیدا ہونے
لگا۔ لیکن اس ڈرامے کے سامنے آنے سے کئی غلط معلومات بھی دیکھنے والوں میں
مشہور ہوگئیں اور ایک بڑی تعداد نے ڈرامے کو مکمل طور پر ہی حقیقت تصور کر
لیا ہے۔ حالانکہ ارطغرل غازی کی حقیقی زندگی اور کتبِ تواریخ میں مذکور
حالات بہت الگ ہیں۔ اس کے متعلق ایک باب میں تفصیلی طور پر وضاحت کی گئی
ہے۔ اس کے علاوہ ایک طبقہ ارطغرل کے خلاف کینہ و بغض میں اس قدر آگے بڑھ
گیا ہے کہ اس کی شخصیت و تاریخ پر اعتراض کر کے اور اس کی مسلمانی کے متعلق
شکوک و شبہات پیدا کر کے سوال اٹھانے لگا ہے۔ ان اعتراضات کا جواب بھی
کتاب میں لکھ دیا گیا ہے۔
سلطنتِ عثمانیہ کے متعلق اُردو زبان میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ ارطغرل غازی
پر تو کوئی بھی اُردو داں مؤرخ پانچ دس صفحات سے زیادہ نہ لکھ سکا۔ لہٰذا
اب اس شخصیت پر علمی و تحقیقی کتاب کی اشد ضروت محسوس ہونے لگی۔ اسی کمی کو
مدنظر رکھتے ہوئے اس کتاب کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا۔
درحقیقت ارطغرل کے حالات پر قلم اٹھانا نہایت محنت طلب اور دشوار کام تھا
کیونکہ ارطغرل کی شخصیت کے متعلق کتبِ تواریخ میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ بعد
کے ادوار میں مرتب ہونے والی کتب میں بعض مستشرقین نے اس موضوع پر تاریخ کو
مسخ کر کے اپنے بغض و نفرت کا اظہار کیا ہے، جس کا مقصد اہلِ اسلام اور
خصوصاً نوجوان نسل کو اپنے اسلاف سے دُور کر کے ان کے جذبۂ ایمانی کو
کمزور کرنا تھا۔ اس مقصد کے تحت گزشتہ ایک صدی میں بعض ایسی کتابیں لکھی
گئیں جنہوں نے خاموش ہتھیار کا کام کیا۔
ارطغرل کی زندگی پر ایک جامع کتاب ترتیب دینے کے دو راستے تھے۔ پہلا یہ کہ
اس کے متعلق مستند اور غیر مستند مواد کو یکجا کر کے، واقعات میں مبالغہ
آرائی اور پُرگوئی سے کام لے کر کتاب لکھی جاتی جو کہ پڑھنے والوں کے لیے
دلچسپی کا باعث تو ہو جاتی لیکن کتاب تاریخ سے زیادہ فرضی داستان اور فکشن
کی شکل اختیار کر لیتی۔دوسرا راستہ یہ تھا کہ معتبر کتب و روایات کی روشنی
میں ارطغرل کی حقیقی زندگی، خاندانی پس منظر اور اس زمانے میں ارطغرل سے
وابستہ اہم شخصیات اور واقعات کو اساس بنا کر تاریخ بیان کی جائے، جس سے
ارطغرل کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم ہو سکے۔
ہم نے اس کتاب میں دوسرا راستہ اختیار کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔
اسلام سے قبل، ابتدائی ترکوں کے متعلق معلومات کا اہم منبع قدیم
اَوغُوزنامہ [Oghuz Nama]، ددہ قورقوت کی کتاب [Book of Dede Korkut] اور
گور اوغلی کی داستانیں [Epic of Görogly] ہیں، جو کہ ہزاروں سال سے سینہ بہ
سینہ لوک داستانوں کی صورت میں ترکوں میں چلتی آئی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ
ان کتب کے واقعات تبدیلیوں کے باعث افسانوی شکل اختیار کر گئے۔ لیکن تاریخ
کو بہتر سمجھنے کے لیے افسانے بھی ضروری ہیں۔ جہاں لکھی ہوئی تاریخ کی
رسائی ختم ہوجاتی ہے، وہاں یہی افسانے اور داستانیں اہمیت حاصل کر لیتی
ہیں۔ یاد رہے کہ اگر کسی قوم کی اپنی لوک داستانیں موجود ہیں تو اس کا مطلب
یہ ہے کہ اس کی تاریخ بھی بہت وسعت رکھتی ہے۔ ارطغرل غازی کی طرف سے اپنے
بیٹے عثمان کو کی جانے والی آخری نصیحت و وصیت میں تاریخ کی اہمیت کو یوں
بیان کیا گیا ہے:
’’میرے بیٹے عثمان! جو اپنے ماضی سے ناواقف ہو، وہ اپنے مستقبل سے بھی
بےخبر رہتا ہے۔ اپنی تاریخ سے آگہی حاصل کرو، تاکہ تم مطمئن ہو کر آگے کی
طرف قدم رکھ سکو۔ ہمیشہ یاد رکھنا کہ تم کہاں سے آئے تھے اور تم نے کہاں
جانا ہے۔‘‘
تو لیجیے، کتاب حاضر ہے۔ مجھے یہ دعویٰ کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ارطغرل
غازی پر یہ اُردو زبان میں شائع ہونے والی پہلی جامع اور تحقیقی کتاب ہے۔
اس کتاب کی تصنیف میں زیادہ تر تُرکی و فارسی اور بعض مقامات پر انگریزی و
اُردو ماخذات سے مدد لی گئی ہے تاکہ ایک مستند تاریخ مرتب کی جا سکے۔ تاہم
انسان خطا سے خالی نہیں ہے اور چونکہ میری مادری زبان ترکی ہے اس لیے اگر
کسی مقام پر کوئی لغزش سرزد ہوگئی ہو تو قارئین سے درگزر کا خواست گار ہوں۔
رحمت اللہ ترکمن
(سیکریٹری افغان پارلیمنٹیرین)
Book Attributes | |
Pages | 368 |