بعض کتب ایسی ہوتی ہیں جو اپنے سادہ اسلوب، حقیقت پر مبنی بیانیے اور پر اثر انداز سے قاری کو پہلی سطر سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ ایسی کتب کا سحر صرف ان میں تحریر کردہ مواد کی وجہ سے ہی نہیں اثر انداز ہوتا، بلکہ اسے لکھنے والے کی شخصیت اور مزاج بھی کتاب کو ایک ایسی روح عطا کرتا ہے جو کتاب سے نکل کر قاری میں حلول کر جاتی ہے۔ بہت کم کتب ایسی ہوتی ہیں جو پڑھتے ہوئے آپ پر بوجھ بھی نہیں بنتیں اور اپنا لفظ لفظ آپ کے دل میں بھی اتارتی چلی جاتی ہیں، بلکہ یوں کہیے کہ ان کا مطالعہ دست مسیحا کی مانند، اپنی تاثیر قاری کے دل و دماغ میں اتار دیتا ہے اورقاری کتاب پڑھنے کے بعد بھی اسی میں محو رہتا ہے۔ کچھ ایسا ہی اثر گلزار کی کتاب " گریاد رہے" میں بھی محسوس ہوا۔
"گَر یاد رہے" میں، بہت سے "پچھلے پنّے" بھی شامل ہیں۔ کچھ "سوانحی افسانے" (Biographical Stories) بھی ہیں۔ جو صحیح واقعات پرصحیح ناموں کے ساتھ لکھے گئے ہیں۔ اُن میں کوئی بات فکشن نہیں ہے۔ تخیّلی نہیں ہے۔ West (مغرب) میں ایک روایت ہے Biographical ناول لکھنے کی۔ خیال آیا اگر ناول لکھے جاسکتے ہیں تو Biographical افسانے کیوں نہیں؟ .... اِس کتاب میں وہ بھی شامل ہیں۔ کچھ نظمیں جو مَیں نے دوستوں اور اپنے معزز اُستادوں کے نام لکھیں۔ وہ ہندوستان سے بھی ہیں اور پاکستان سے بھی۔ اور کچھ رشتے جو "اُردو" کے ناطے سے جُڑ گئے۔ کچھ لوگوں کو پڑھنے والے جانتے ہوں گے، کچھ جان جائیں گے۔ اِس کتاب میں ایک نوسٹیلجیا ہے۔ جو میرے اَندر مہکتا رہتا ہے۔
وقت کے سِتم کم حسیں نہیں
آج ہیں یہاں کل کہیں نہیں
وقت سے پَرے اگر مِل گئے کہیں
میری آواز ہی پہچان ہے ، گَر یاد رہے!
گلزارؔ
Book Attributes | |
Pages | 220 |