- Writer: Muhammad Ahsan Rana
- Category: Politics Books
- Pages: 496
- Stock: In Stock
- Model: STP-12532
شاعر نے خراج کی وصولی پر گزر اوقات کرنے والے میر و سلطان کے طرزِ عمل کو
گداگری سے تعبیر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا
خراج۔ احسن رانا کے نزدیک سرمایہ دارانہ معاشروں میں موجودہ نام نہاد فلاحی
نظام اسی خراج کی دوسری شکل ہے۔ تاہم وہ محروم طبقات سے ٹیکس کی صورت میں
یہ خراج وصول کرکے اس کا بڑا حصہ اپنی شہ خرچیوں، مراعات اور سہولتوں پر
صرف کرنے والی اشرافیہ کو گداگر کے نام سے یاد کیے جانے کی رعایت دینے کے
لیے تیار نہیں۔ وہ انھیں سیدھے سبھاؤ غاصب اور لٹیرے سمجھتا اور پکارتا
ہے۔ ہمیں احسن رانا کے حقیقت پسند اور سفاک قلم سے اس رعایت کی توقع بھی
نہیں کرنی چاہیے۔
احسن رانا کی یہ تصنیف پاکستان کے نام نہاد فلاحی نظام کے اندرونی تضادات،
ناانصافیوں اور کجیوں کی وہ چشم کشا داستان ہے جو ملکی تاریخ میں پہلی
مرتبہ رقم کی جارہی ہے۔ یہ تصنیف اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت فراہم کرتی ہے
کہ پاکستان کے کروڑوں عوام کو آج جس درجہ درماندگی اور زبوں حالی کا سامنا
ہے اس کا سبب تقدیر کا جبر یا دستیاب وسائل کی کمی نہیں بلکہ ایک خاص
مراعات یافتہ طبقے کی لوٹ مار اور چیرہ دستیوں میں پنہاں ہے۔ احسن رانا اس
تصنیف میں اس حقیقت کو شدومد کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ پاکستان کے
صنعتکاروں، بڑے تاجروں ، بڑے زمینداروں ، سیاستدانوں ، حکمرانوں، ججوں، سول
اور فوجی ملازمین، اور محنت کشوں کی مراعات یافتہ تہ پرمشتمل یہ گروہ
ہمارے پیداواری عمل اور اس کے ماحصل کی تقسیم کے نظام کو مکمل طور پر
یرغمال بنا چکا ہے۔ وہ دستیاب وسائل اور مراعات کی تقسیم کے عمل میں ان
گروہوں کی فیصلہ کن حیثیت کی موجودگی میں معاشرے کے زیریں طبقوں کی زندگیوں
میں بہتری کی امید کو دیوانے کا خواب قرار دیتا ہے۔
میں نے احسن رانا کی اس تصنیف کو اپنے موضوع پر پہلی تصنیف قرار دیا ہے۔
کاش میرا یہ دعویٰ غلط ہوتا۔ بظاہر ناقابلِ یقین سہی ، مگر، بدقسمتی سے،
حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کی سات عشروں سے زیادہ کی تاریخ کے دوران کسی
ادیب، مؤرخ ، ماہرِ معیشت ، سیاستدان یا صحافی کو یہ توفیق میسّر نہیں آ
سکی کہ وہ مصدقہ اعداد وشمار اور نا قابلِ تردید دلائل کےساتھ اس خوفناک
استحصال کی ایک جامع تصویر پیش کر سکے جس کا سامنا پاکستان کے مجبور اور بے
کس عوام کو روزِ اوّل سے کرنا پڑ رہا ہے۔
احسن رانا نے اس فرض کفایہ کو پوری دیانت، ہمت اور جراَت کے ساتھ ادا کیا
ہے۔ وہ زراعت، تعلیم، صحت، پنشن، غربا کی مالی امداد جیسے شعبوں میں قومی
وسائل یا اثاثوں کی تخصیص اور استعمال میں موجود افراط و تفریط کا تجزیہ یا
اس پر اپنی رائےکا اظہار کرتے ہوئے عذرخواہی یا مداہنت کو پاس بھی نہیں
پھٹکنے دیتا۔
اسی طرح وہ ملک میں مختلف اوقات میں ہونے والی زرعی اصلاحات سے لے کر نقد
رقوم کے امدادی پروگراموں، کھاد، زرعی ادویات، غذائی اشیا اور ایندھن پر دی
جانے والی سبسڈی سے لے کر سرکاری ملازمین کی پنشن تک بظاہر فلاحی اقدامات
کے محرکات و عواقب کی نشان دہی اور ان کے معروضی تجزیوں کے ذریعے قاری کو
اپنی طرح یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے
ہیں پرویزی۔
احسن رانا نے درس وتدریس اور اس سے پہلے سرکار میں افسری کے دوران اپنے
ذریعۂ اظہار یعنی انگریزی کے برعکس یہ کتاب اُردو زبان میں تحریر کرنے کو
ترجیح دی ہے۔ وہ اس مقصد کے لیے انگریزی کا انتخاب کرتا تو یہ راستہ اس کے
لیے کئی اعتبار سے نسبتاً محفوظ اور پیشہ وارانہ طور پر کہیں زیادہ سود مند
ثابت ہوتا۔ لیکن اس صورت میں اس کا پیغام انگریزی زبان سے نا آشنا ان
افتادگانِ خاک تک کبھی نہ پہنچ پاتا جن کے جاں گسل روز و شب کی سنگینی کا
احساس اس کتاب کی ایک ایک سطر میں جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
میں اس کتاب کی اشاعت کو پاکستان کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی تاریخ کا ایک
اہم واقعہ سمجھتا ہوں۔ ایک ایسا واقعہ جو ہمارے حبس زدہ ماحول میں لمحۂ
موجود کے مسائل کے بارے میں بے لاگ تحقیق، معروضی استنباط اور جراَت مندانہ
اظہار کی ایک نئی روایت کے روشن امکانات اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔
(شعیب بن عزیز)
سرمایہ دارانہ فلاحی نظام پر احسن رانا کی کتاب پاکستان کی سیاسی اقتصادیات
کے بارے میں ایک اچھوتی جہت کی عکاسی کرتی ہے۔ قومی زبان میں اس موضوع پر
لکھی جانے والی یہ پہلی تحقیقی تصنیف ہے۔ اس سے قبل جو محدود مواد دستیاب
ہے وہ زیادہ تر نظریاتی یا صحافتی ہے۔ احسن رانا نے اس کتاب میں مستند
اعداد و شمار کے ساتھ کینزین فلاحی ریاست کا تفصیلی اور سائنسی تجزیہ پیش
کیا ہے اور یہ نشان دہی کی ہے کہ فلاحی ریاست بدلتے ہوئے اجارہ دارانہ و
سرمایہ دارانہ نظام میں متعدد قسم کی دشواریوں سے دوچار ہے۔ فلاحی ریاست
اور سرمایہ دارانہ نظام میں موجود کھچاؤ کے باوجود ریاست فلاحی اخراجات
بڑھاتی ہے مگر لوگوں کی فلاح پھر بھی نہیں ہوتی اور سرمایہ کی غیر مساوی
تقسیم بڑھتی ہے جس سے مزدوروں، کسانوں اور دیگر محنت کشوں کا پیداواری
وسائل پر تصرّف مزید کمزور ہو جاتا ہے۔ اس تحقیقی تصنیف کا ایک اہم امتیاز
مزدور دوست فلاحی نظام کا خاکہ اور اسے عملی جامہ پہنانے کے بارے میں عملی
تجاویز ہیں۔ عموماً ایسے موضوعات پر لکھی جانے والی تحریریں موجودہ بندوبست
کی تنقید تو ڈٹ کر کرتی ہیں لیکن یہ نہیں بتلاتیں کہ متبادل کیا ہے۔ تاہم
احسن رانا نے محنت کش طبقے کا پیداواری وسائل پر اختیار بڑھانے کی لیے
متعدد ٹھوس تجاویز دی ہیں جو سوچ کی نئی راہیں کھولتی ہیں۔ اس کتاب کو
ماہرین اقتصادیات، طلبہ، دانشور اور پالیسی ساز حلقے، اخبار نویس اور آزاد
سوچ رکھنے والے تمام افراد دلچسپی سے پڑھیں گے۔ امید ہے کہ قومی زبان میں
کی جانے والے یہ قابلِ تحسین کاوش پاکستان کے پڑھے لکھے اشخاص میں نیا شعور
پیدا کرے گی اور قومی زبان میں تحریر اور تحقیق کے رجحان کو تقویت دے گی۔
(ڈاکٹر سعید شفقت)
Book Attributes | |
Pages | 496 |