- Writer: Sohail Parwaz
- Category: Humour (Mazah)
- Pages: 239
- Stock: In Stock
- Model: STP-9126
- ISBN: 978-969-662-471-4
اگرچہ سہیل پرواز پَر نہیں رکھتے مگر قدرتِ زبان، انوکھی ترکیبوں، شگفتہ مزاجی اور دیوانگیٔ تخلیق کی طاقتِ پرواز رکھتے ہیں کیونکہ وہ ادب کے آسمان پر ایک شاہین کی مانند یُوں نمودار ہوئے ہیں کہ بقیہ چڑیاں وغیرہ اُن سے خوفزدہ ہو کر اس آسمان کو خالی کر گئی ہیں اور اب وہ اکیلے اڑانیں بھرتے ہیں۔ کاکول اکیڈمی کی دردناک بلکہ عبرتناک روداد بہت سوں نے قلمبند کی لیکن سہیل پرواز اپنے تخیل کے زور پر اُن سب سے ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔ یوں تو جیسے عید کی سکرپٹ ایک ہی ہوتی ہے یعنی عید کی نماز، سِویّاں، عیدی اور تم گلے سے آملے اور سارا گلہ جاتا رہا وغیرہ... ایسے ہی کاکول اکیڈمی کے شب و روز کی سکرپٹ بھی ایک ہی ہوتی ہے۔ وہی انسٹرکٹرز کی دھلائی، سٹاف کی منجھائی، سینئرز کی رگڑائی، ان کے ظلم و ستم، قلابازیاں اور پھر بالآخر کمیشن کا حصول... لیکن جیسا کہ سیف الدین سیف نے کہا تھاکہ ’سیفؔ اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے... ورنہ دُنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں‘ ایسے ہی کاکول کی روداد بھی کوئی نئی بات نہیں، یہ سہیل پرواز کا اندازِ بیاں ہے جس نے یہ بات بدل دی ہے۔ ’’اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘‘ پڑھتے ہوئے زندگی میں پہلی بار بہت جی چاہا کہ کاش ہم بھی کاکول کے ہنگامہ خیز تجربے میں سے گزرے ہوتے۔ ویسے ہم تو گزر ہی گئے ہوتے لیکن اگر ہم یہ روداد لکھتے تو ایسا نہ لکھ سکتے جیسا سہیل نے لکھا۔ ہم تو فوراً اباؤٹ ٹرن ہوجاتے لیکن سہیل نے اباؤٹ ٹرن کرنے میں قطعاً پُھرتی نہیں دکھائی بلکہ اس کوئیک مارچ کو ربع صدی تک کھینچ کر لے گئے اور کاکول کی داستان کو آگے بڑھاتے ہوئے ملازمت کا احوال بھی شگفتہ انداز میں بیان کیا ہے۔ کاکول کے کالے گراؤنڈ کی مارچ انھوں نے پلٹن کے میدان میں بھی جاری رکھی، جہاں دیگر افسر اور جوان ان کے ہم رکاب ہیں۔ سہیل نے یہ سمجھانے کی جسارت بھی کی کہ خاکی وردی پہن کر کسی بھی نوجوان کے لیے احساسات و جذبات شجرِ ممنوعہ نہیں ہو جاتے۔ اس کے سینے میں بھی وہی دل دھڑکتا ہے جو کسی نوجوان ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، بینکر یا کسی اور پیشے سے منسلک شخص کے سینے میں دھڑکتا ہے۔ آپ بھی یہ حقیقت ذہن میں رکھ کر ’’اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘‘ کا مطالعہ کیجیے، یقیناً لطف اٹھائیں گے۔
مستنصر حسین تارڑ
Book Attributes | |
Pages | 239 |