اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے : (بیشک اللہ کے خو بصو رت نا م ہیں سو اِ ن نامو ں سے اُ سے پکا رو )، (الا عرا ف : 180)یہ اس با ت کی دلیل ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان اسما کو ہما رے لیے اپنی کتاب یا اپنے رسو ل ﷺ کی زبا نی متعین کر دیا ہے-
یہ ننا نو نے نا م ہیں جیسا کہ اس با ر ے میں ایک صحیح خبر ہے ۔ حق تعالیٰ کے اسما دو طرح کے ہیں : ایک وہ جو اُ س نے ہمیں سکھا ئے اور دو سرے وہ جو اس نے اپنے غیب کے علم میں چھپا ئے ، جنہیں اُ س کی مخلو ق میں کوئی نہیں جا نتا ، ایک صحیح حد یث کا یہی بیا ن ہے ۔ وہ اسما جو اُ س نے ہمیں سکھا ئے وہ بھی دو طرح کے ہیں : ایک وہ اسما جو خا ص پہچا ن کے لیے ہیں جیسے کہ اسم اللہ ۔ اور دو سرے وہ اسما جو اضا فی صفات کو بیا ن کر تے ہیں ، یہ وہ بھی دو طر ح کے ہیں : ایک وہ اسما جو صفاتِ تنز یہ پر دلا لت کرتے ہیں ، اور دو سرے وہ اسما جو صفاتِ افعا ل پر دلا لت کرتے ہیں ۔ بندے کا اسما ئے حق تعالیٰ سے تعلق ، تحقیق اور تخلیق کا رشتہ ہے تعلق اس حیثیت سے تیرا اِن اسماکا مطلق محتاج ہونا ہے جس (حیثیت )سے یہ ذا ت پر دلا لت کرتے ہیں ۔ ت
حیقق حق تعالیٰ کے لحاظ سے اور خود تیر ے لحا ظ سے ان کے حقیقی معا نی کا جا ننا ہے جبکہ تخلق یہ ہے کہ تو ان سے ویسے قائم ہو جو تیرے لا ئق ہے جیسا کہ یہ (اسما)اُ س پا ک ذا ت سے ویسے منسو ب کیے جاتے ہیں
Book Attributes | |
Pages | 380 |