This work is a
delightful anthology that offers a rare glimpse into the lesser known
aspects of Ismat Chughtai’s writing—the warmth, humour, and affection
with which she writes on her childhood. Shedding all of the certainties
of an adult, she steps into a child’s shoes, looks upon the world..
جب ناول ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ شائع ہوئی تو کچھ لوگوں نے
کہا میں نے ایک جنسی مزاج اور بیمار ذہنیت والی لڑکی کی سرگزشت لکھی ہے۔
علم نفسیات کو پڑھیے تو یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون بیمار ہے اور کون
تندرست۔ ایک پارسا ہستی جنسی بیمار ہو سکتی ہے اور ایک آوارہ اور بدچلن
انسان صحت مند ہو سکتا ہ..
عصمت چغتائی کا پہلا ناول ’’ضدی‘‘۱۹۴۰ء میں شائع ہوا۔ اس میں اعلی طبقے کی
روایت پرستی اور ادنی طبقے کی قدامت پرستی کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے ۔اس
ناول کے مرکزی کرداروں میں ایک پورن سنگھ ہے جس کا تعلق زمیندار گھرانے سے
ہے جو ایک خود سراور ضدی کردار ہے۔ دوسرا کردار آشا ہے جو ایک نچلے طبقے
کی م..
یہ
کتاب کمزور دل افراد کے لیے نہیں لکھی گئی تھی.... چُبھنے والے غصے اور
کاٹ دار حقیقت نگاری کے ساتھ باریک بین آنکھ نے صرف بمبئی سینما کی اندھیر
نگری کی ہی تصویر کشی نہیں کی بلکہ نام نہاد شرافت کے کلچر کا نقاب بھی
نوچا ہے......
عصمت چغتائی کے افسانوں کو غور اور توجہ سے دیکھیں تو ان تحریروں میں کہیں کہیں ان کی جھلک بھی نظر آتی۔ مگر ان کے افسانوں کو آپ بیتی نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا مشاہدہ بہت تیز تھا۔ زندگی کے نامعلوم کتنے چھوٹے چھوٹے واقعات اور نامعلوم کتنے چھوٹے بڑے کرداروں کو انہوں نے افسانوں میں ڈھالا ہے۔ عصمت نے..
جب ناول ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ شائع ہوئی تو کچھ لوگوں نے
کہا میں نے ایک جنسی مزاج اور بیمار ذہنیت والی لڑکی کی سرگزشت لکھی ہے۔
علم نفسیات کو پڑھیے تو یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون بیمار ہے اور کون
تندرست۔ ایک پارسا ہستی جنسی بیمار ہو سکتی ہے اور ایک آوارہ اور بدچلن
انسان صحت مند ہو سکتا ہ..