Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Jazeera Nahi Hon Main - جزیرہ نہیں یوں میں

Jazeera Nahi Hon Main - جزیرہ نہیں یوں میں
Jazeera Nahi Hon Main - جزیرہ نہیں یوں میں
-24 %
Jazeera Nahi Hon Main - جزیرہ نہیں یوں میں
Jazeera Nahi Hon Main - جزیرہ نہیں یوں میں
Jazeera Nahi Hon Main - جزیرہ نہیں یوں میں
Rs.1,900
Rs.2,490

خواجہ احمد عباس کون تھے ۔۔۔ چلیے بات وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں دلچسپی کا عنصر زیادہ ہو ۔ تو سن لیجئے کہ خواجہ احمد عباس وہ تھے جنہوں نے اس امیتابھ بچن کو فلموں میں اس وقت پہلا موقع دیا جس کو دیگر ہدایتکاروں اور فلمسازوں نے بے ڈھنگا قرار دے کر ٹھٹھے اڑائے تھے ۔ خواجہ صاحب نے فلم سات ہندوستانی بنائی اور سات ہندوستانی نے امیت کو امیتابھ بچن بنایا ۔۔ لیکن خواجہ احمد عباس کا ادبی قد و قامت سات ہنوستانی سے بلند تر ہے ۔۔ "جزیرہ نہیں ہوں میں" ایک ایسی خود نوشت ہے جو تجسس سے بھرپور ہے ۔ سنہ پینتالیس میں انہوں نے دو سال قبل کے قحطِ بنگال پر مبنی فلم "دھرتی لال" سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا ۔ ان کی فلمی کہانیوں میں آوارہ، انہونی ، میرا نام جوکر اور بوبی کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ۔ انہوں نے بمبئی ٹاکیز کے لئے کہانیاں لکھیں اور جب بمبئی ٹاکیز بند ہوگئی تو راج کپور نے ان کی کہانیوں کو فلمایا۔ ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ خواجہ صاحب جب کسی دوسرے پروڈیوسر کے لئے کہانی لکھتے تو فلم غیر معمولی کامیاب ہوتی، لیکن جب وہ خود اپنی کہانی فلماتے تو فلم ناکام ہوجاتی ۔ خواجہ صاحب نے تقریباً ایک درجن فلمیں بنائیں جن میں: دھرتی کا لال، ہمارا گھر، نکسلائٹ، سات ہندوستانی۔ شہر اور سپنا ، دو بوند پانی اور فاصلے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان فلموں کی ناکامی کی غالباً وجہ یہ تھی کہ یہ سنجیدہ موضوع پر تھیں۔ خواجہ صاحب پورے موضوع کو بڑی سنجیدگی سے ٹریٹ کرتے تھے ۔ ان میں وہ چیزیں نہ ہوتیں جنہیں فلم کی زبان میں مسالہ کہاجاتا ہے ۔ خواجہ صاحب کی فلمیں آج کل تجرباتی فلموں کی پیش رو تھیں۔ خواجہ احمد عباس زندگی کے آخری دنوں تک فلمی دنیا سے متعلق رہے۔ان کی فلمی زندگی کا آغاز بہت دلچسپ انداز میں ہوا ۔ انہوںنے پہلی بار شانتا رام کی فلم"دنیا نہ مانے" پر غالباً 1937ء میں ریویو لکھا، جسے اتنا پسند کیا گیا کہ بمبئی کرانیکل (جس کے ادارہ تحریر میں خواجہ صاحب شامل تھے) کے ذمہ داروں نے انہیں باقاعد فلمی نقاد بنادیا اور اس کے بعد فلموں پر خواجہ صاحب کے تبصرے برابر چھپتے رہے ۔


خواجہ صاحب چونکہ غیر معمولی پڑھے لکھے آدمی تھے، اس لئے فلمی دنیا کے اہم ادارون سے وابستہ رہے ۔ وہ انڈین موشن پکچرز ، پروڈیوسر ایسوسی ایشن ، فلم رائٹر ایسو ایشین، ڈاکو مینٹری پروڈیوسر ایسوسی ایشن اور فلم ڈائرکٹر اسوسی ایشن کے مستقل ممبر تھے ۔ وہ فلم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا پونا میں وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے خواجہ صاحب کی فلمیں عوام میں تو بہت مقبول نہیں ہوئیں، لیکن چونکہ اعلی درجے کی تھیں اس لئے انہیں شہر اور س پنا پر پریذیڈنٹ گولڈ میڈل ملا۔ ہمارا گھر کو اسپین، چیکو سلواکیہ اور امریکہ نے انعام دئیے ۔ نکسلاہٹ پر اٹلی سے انعام ملا۔ سات ہندوستانی کو بھی انعام سے نوازا گیا۔

صف اول کے شاعر خواجہ الطاف حسین حالی خواجہ احمد عباس کی دادی کے ماموں تھے ۔ خواجہ احمد عباس کو طالب علمی کے زمانے ہی سے اخبار نویسی کا بہت شوق تھا ۔ انہوں نے علی گڑھ میل کے نام سے انگریزی میں ایک قلمی اخبار جاری کیا جو کچھ عرصہ جاری رہا۔ 1933ء میں خواجہ صاحب بی اے کا امتحان دے چکے تھے اور دہلی میں بیٹھے اپنے رزلٹ کا انتظار کررہے تھے ۔ ان دنوں دلی سے ایک قوم پرست روزنامہThe Aligarh Opinionشائع ہوتا تھا ۔ جس کے ایڈیٹر جے۔ این سہانی تھے ۔ خواجہ صاحب نے اس اخبار میں تقریباً تین مہینے بغیر معاوضے کے کام کیا۔ یہ گویا ان کی صحافتی تربیت کا زمانہ تھا۔


تعلیم ختم کرکے خواجہ صاحب بمبئی چلے گئے اور وہاں انگریزی میں شائع ہونے والے اخبار"بمبئی کرانیکل" میں ملازم ہوگئے ۔ اس میں انہوں نے 1947ء تک رپورٹر، سب ایڈیٹر، کالم نگار، اور فلمی نقاد کی حیثیت سے کام کیا۔ 1947ء میں وہ بلٹر، (ہفت روزہ) سے وابستہ ہوگئے ۔اور زندگی کے آخری دن تک اس ہفت روزہ کا آخری صفحہ لکھتے رہے ۔ اس صفحے پر خواجہ صاحب قومی اور بین الاقوامی سیاسی اور ہندوستان کی سماجی ، ادبی، اور فلمی زندگی پر اظہار خیال کرتے تھے۔خواجہ صاحب نے ہندی میں ایک رسالہ جاری کیا تھا، لیکن انہیں اشتہارات توقع سے بہت کم ملے اور پھر ایجنٹوں نے ان کی رقم دبالی۔ خواجہ صاحب کو مجبوراً رسالہ بند کرنا پڑا۔


ایک انٹرویو میں خواجہ صاحب نے کہا تھا: "ہمارے گھر کا ماحول ایسا تھا ، جس میں کتابیں تھیں ،رسالے تھے، ہمارے گھر کی عورتیں اکثر ایسے ناول منگاتی تھیں جو عورتوں کے لئے لکھے جاتے تھے ۔ وہ عورتیں یہ ناول زور زور سے پڑھتی تھیں۔ جب میں چھوٹا تھا تو میں ان عورتوں کی زبانی ناول سنا کرتا تھا۔ جب میں آٹھ سال کا ہوا تو میں نے پہلی دفعہ خود ناول پڑھا، جس کا نام تھا گردڑ کا لعل ، اس کے بعد فسانہ آزاد پڑھا، یعنی سات آٹھ برس کا تھا میں کہ جب رضائی اوڑھ کر فسانہ آزاد پڑھا کرتا تھا۔ کیونکہ ابا ہمارے اجازت نہیں دیتے تھے زیادہ رات تک پڑھنے کی اور ایک رات رضائی کے اندر آگ لگ گئی ۔ تب مجھے معلوم ہوا فسانہ آزاد اتنا دلچسپ ناول تھا کہ میں اس میں کھویا رہا اور اتنے میں رضائی میں آگ لگ گئی لالٹین سے۔


خواجہ صاحب نے 1975ء میں انگریزی میں "انقلاب" نام سے ایک ناول لکھا۔ خواجہ صاحب کا کہنا تھا کہک انہوں نے 1942ء میں یہ ناول لکھنا شروع کیا تھا اور 1949ء تک صرف 13 باب لکھ پائے تھے۔ اس ناول کی طباعت کا معاملہ بہت دلچسپ ہے ناول بہت ضخیم تھا، اس لئے کوئی ہندوستانی پبلشر اسے چھاپنے پر تیار نہیں تھا۔ 1954ء میں خواجہ صاحب روس گئے تو ناول کا مسودہ اپنے ساتھ لیتے گئے ۔ وہاں ناول بہت پسند کی اگیا ۔ اور "سین اندی" یعنی ہندوستان کا بیٹا کے نام سے روسی زبان میں شائع ہوا۔ اس کا پہلا ایڈیشن 90 ہزار کی تعداد میں چھاپا گیا۔ 1955ء میں جرمنی میں یہ ناول شائع ہوا ۔ اب کچھ ہندوستان کے پبلشروں کو خیال آیا۔ بمبئی کا ایک پبلشر انگریزی ایڈیشن شائع کرنے پر تیار ہوگیا۔ مگر اس نے ڈیڑھ سو صفحے کم کرکے چھاپا، پھراس کے ہندی اور اردو ایڈیشن شائع ہوئے ۔


خواجہ احمد عباس ایک بڑے فن کار اور ایک عظیم انسان تھے ۔ وہ بے خوف اور نڈر انسان تھے ، انسانیت پر انہیں پورا بھروسہ تھا۔ خواجہ صاحب کی ساری زندگی فرقہ پرستی کے خلاف جہاد کرتے ہوئے گزری۔

خودنوشت. "جزیرہ نہیں ہوں میں" پہلی مرتبہ انگریزی سے اردو میں منتقل کی گئی ہے. یہ وقت کی ضرورت تھی کہ ہم ایک ایسے انسان کے تجربات کو اردو دنیا بالخصوص پاکستانی باذوق قارئین کے سامنے پیش کرسکیں جو اپنے فن میں یکتا کہلایا. بلاشبہ یہ کتاب اپنے عہد کے حالات و واقعات کا احاطہ کرتی ایک حساس انسان کی دلچسپ آپ بیتی ہے.

Book Attributes
Pages 636

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good