Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Kiya Qafla Jata Hay - کیا قافلہ جاتا ہے

Kiya Qafla Jata Hay - کیا قافلہ جاتا ہے
Kiya Qafla Jata Hay - کیا قافلہ جاتا ہے
Kiya Qafla Jata Hay - کیا قافلہ جاتا ہے
Kiya Qafla Jata Hay - کیا قافلہ جاتا ہے
-29 %
Kiya Qafla Jata Hay - کیا قافلہ جاتا ہے
Kiya Qafla Jata Hay - کیا قافلہ جاتا ہے
Kiya Qafla Jata Hay - کیا قافلہ جاتا ہے
Kiya Qafla Jata Hay - کیا قافلہ جاتا ہے
Kiya Qafla Jata Hay - کیا قافلہ جاتا ہے
Rs.500
Rs.700

ایک مرتبہ میرے گھر کے سامنے شاہ جی تقریر کرنے کی غرض سے آئے۔ جلسے کے منتظمین نے مجھ سے کہا کہ شاہ جی تقریر کرنے سے پہلے تمہارے یہاں آکر بیٹھیں گے۔ میں نے کہا کہ شاید اس بات پر مولانا ظفر علی خان صاحب مجھ سے خفا ہوجائیں۔ لوگوں نے یہ بات شاہ جی کو بتائی، تو وہ ہنس کر خاموش ہوگئے لیکن جب اِس بات کا علم مولانا ظفر علی خان کو ہوا تو وہ بہت خفا ہوئے اور کہا، کہ شاہ جی تمہارے لیے قابل احترام ہیں، ویسے مَیں بھی ان کا احترام کرتا ہوں۔ اب تم جاؤ اور شاہ جی سے معافی مانگو اور جب مَیں شاہ جی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے معافی مانگنے لگا تو میری آنکھوں سے آنسُو جاری ہوگئے۔ شاہ جی نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور میرے لیے دُعا کی اور فرمایا: میں تم سے خفا نہیں ہوں، ایسی باتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ عطا اللہ شاہ بخاری

------
بندو خان کے بارے میں یہ قصّہ بہت مشہور ہے کہ ریاست اندور میں مہاراجہ کے محل کے پیچھے ایک پنڈت کی دکان تھی۔ اس دکان میں لال اور بئے اور پدیوں کے پنجرے لٹکے رہتے تھے۔ وہ ان پرندوں کا کاروبار کرتاتھا۔ ایک دن بندو خان سارنگی لیے اُدھر سے گُزر رہے تھے۔ انہوں نے یہ پرندے دیکھے تو انہیں رحم آیا۔ خان صاحب نے پنڈت جی سے کہا، ننھّے مُنّے پرندوں کا کیوں عذاب سمیٹتے ہو، انہیں چھوڑ دو۔ پنڈت جی نے کہا پھر کھاوں کماؤں کیا۔ بندو خان نے لالوں کا پنجرہ کھول دیا، سارے لال اُڑ گئے۔ پنڈت جی نے واویلا کیا تو بندو خان نے کہا، ”اچھا تمہاری مرضی اگر یہی ہے تو ہم انہیں بُلادیتے ہیں۔“ یہ کہہ کر انہوں نے سارنگی سے لالوں کی آواز نکالی تو سارے لال پلٹ کر پنجرے میں واپس آگئے۔ استاد بندو خاں

------
کراچی میں ایک صُوفی صاحب ہیں۔ اللہ والے، روشن ضمیر۔ مولوی صاحب کے وصال سے کچھ دنوں پہلے وہ بے حد پریشان تھے۔ مَیں ان کا نام نہیں بتاوں گا (مجھے اجازت نہیں ہے) مجھ پر بے پناہ کرم فرماتے ہیں اور میرے دوست حاجی محمد صدیق صاحب کے یہاں اکثر ان سے مُلاقات ہُوا کرتی تھی۔ مَیں نے صوفی صاحب سے ان کی پریشانی کی وجہ پوچھی، تو کہنے لگے، برِ صغیر کے ایک اور عظیم عالم ِ دین اور درویش خُدا مَست رُخصت ہورہے ہیں۔ دِلّی میں عبدالسّلام نیازی کی وفات ہو گئی ہے اور ادھر پاکستان میں محمد ایوب صاحب کو بُلاوا آگیا۔ فرمایا، کل صبح مولوی ایوب میرے پاس آئے تھے اور کہتے تھے کہ: ” صوفی صاحب موت تو برحق ہے اور یہ زندگی میں اللہ کا سب سے بڑا انعام ہے۔ میرے ذمّے کچھ فرائض ہیں، کچھ لوگوں کا حق ہے، مَیں ان سے فارغ ہونا چاہتا ہوں لیکن موت کا فرشتہ دو دن سے میرے سامنے آکر کھڑا ہورہا ہے۔ آپ دُعا کیجئے کہ فی الحال وہ سامنے نہ آئے، دو چار دن کی بات اور ہے۔ “ یہ کہہ کر صوفی صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ مولوی محمد ایوب

-----------
رام گوپال ہندوستان کا رقّاص تھا اس کے گروپ میں ایک چھیل چھبیلا لڑکا موہن تھا۔ موہن ساڑھی باندھ کر ناچتا تو بڑی سے بڑی ناچنے والیاں پانی بھرتیں۔ ایک مرتبہ میں نے یہ دیکھا کہ موہن، غریب نوازؒ کی درگاہ کی جالی پکڑ کر رو رہا ہے، جب وہ جانے لگا تو مَیں نے اُس سے پوچھا۔ موہن تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہنے لگا، ذوقی شاہ صاحب نے مجھے ایسا نچایا ہے کہ کیا بتاؤں۔ اب کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ میں مسلمان ہوگیا ہوں اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرچکا ہوں۔ مَیں نے خواجہ صاحب کی زیارت کی ہے، اور پھر وہ رونے لگا۔ مَیں نے سوچا کہ ہماری آنکھیں پھوٹ گئی ہیں۔ ہم مسلمانوں میں پیدا ہوئے۔ درگاہ میں آتے ہیں تو حرص کی پٹّی باندھ کر۔ ایک ہم ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں آتا، اتنا بھی نہیں ہوتا کہ ذوقی شاہ صاحب کے پاس بیٹھ کر سیاست کے علاوہ کچھ دین کی باتیں کریں۔ ذوقی شاہ صاحب

-------
ایسا بد نصیب انسان شاید ہی کبھی پیدا ہوا ہو۔ اس نے سینکڑوں کو بنایا اور خود کو بگاڑا۔ بڑا ذہین آدمی تھا۔ اگر صحیح راستے پر لگ جاتا تو دوسرا ظفر علی خاں ہوتا۔ فارسی، اُردو، ہندی اور پنجابی میں شعر کہتا۔ کڈھب قافیوں اور سنگلاخ زمینوں میں شعر کہتا۔ غنڈوں میں غنڈہ، شریفوں میں شریف، عالموں میں عالم ۔ کبھی صوفی اور کبھی سوقی، کبھی ڈاڑھی مونچھیں رکھ لیں اور ساری ساری رات عبادت میں گزاردی۔ اور کبھی چار ابرو کا صفایا، سر گھوٹ موٹ، کانوں میں بالے، جوگیوں کا لباس، ہاتھ میں چمٹا۔ کبھی محلے کے لونڈے لاڑیوں میں بیٹھا بازاری حرکتیں کر رہا ہے تو کبھی علامہ عنایت اللہ خاں مشرقی اور مولانا ظفر علی خان سے اُلجھ رہا ہے۔ کبھی پنجابی شاعروں کا ناطقہ بند کر رہا ہے تو کبھی اُردو کے مشاہیر شعراءکے بخیے اُدھیڑ ڈالے۔ کبھی فقہ و حدیث پر آیا تو علماءکو پریشان کر ڈالا۔ کبھی گرنتھ کی تشریح کرنے پر آگیا تو سِکھ مذہب کے عالموں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ آغا خلش کاشمیری

------
صوفی صاحب نے مجھ سے کہا: آج شام میرے یہاں آؤ میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ ظہیر کاشمیری قریب ہی بیٹھا تھا۔ اُس نے کہا: ”صوفی صاحب آپ اسے غلط سمجھے، یہ صرف کھانے والا ہے، پینے والا نہیں۔“ ریڈیو پاکستان میں ایک نوجوان گانے والی صوفی صاحب سے کسی کی شکایت کرتے کرتے کہنے لگی: ”اب دیکھئے نا صوفی صاحب آپ ہمارے بُزرگ ہیں۔“ صوفی صاحب نے میری طرف دیکھ کر کہا: ”یار اس بزرگی سے ہم پریشان ہوگئے۔ اس نے ہمارا نرخ بھاؤ کم کردیا ہے۔“ صوفی تبسم

Book Attributes
Pages 328

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good