-24 %
Meri Hindustan Jungle Kahani Aur Tri Tops - میرا ہندوستان جنگل کہانی اور ٹری ٹوپس
- Writer: Jim Corbett
- Category: Biography
- Pages: 315
- Stock: In Stock
- Model: STP-12496
Rs.900
Rs.1,190
میرا ہندوستان، جنگل کہانی اور ٹری ٹوپس
بدھو نہ صرف کم گو تھا بلکہ کبھی مسکرایا بھی نہیں تھا۔
جب میں نے اسے بتایا کہ وہ انہیں جلانا نہیں چاہتا تو اپنے پاس رکھ لے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر میرے پاؤں چھوئے اور جب سیدھا ہو کر گھر جانے کو مڑا تو اس کے کوئلے سے بھرے چہرے سے آنسوؤں کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔
تین نسلوں سے غلامی کی زنجیر میں جکڑا ایک انسان آزاد ہوا مگر لاکھوں ابھی تک قید تھے۔ مگر مجھے اس سے زیادہ کبھی خوشی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی الفاظ بدھو کے خاموش جذبات کی ترجمانی کر سکتے تھے جب وہ آنسو بھری آنکھوں سے ٹھوکریں کھاتا اپنی بیوی کو یہ بتانے گیا کہ بنیئے کا ادھار اتر چکا ہے اور اب وہ آزاد ہیں۔
-----
تیز ہواؤں سے آگ درخت کی مخالف سمت بڑھنے لگی اور آٹھ گھنٹے بعد جب تیز بارش اورژالہ باری سے آگ بجھی تو کئی مربع میل کا جنگل جل کر تباہ ہو چکا تھا۔ آدم خور کے سلسلے میں یہ اس شکاری کا پہلا اور آخری تجربہ تھا جس میں وہ پہلے زندہ جلنے اور پھر ٹھٹھر کر مرنے سے بال بال بچا۔ اگلی صبح جب وہ تھکا ہارا ایک راستے سے نینی تال لوٹ رہا تھا تو میں اس سے بے خبر دوسرے راستے سے وہاں جا رہا تھا۔ میری درخواست پر دیہاتی مجھے اس درخت کو لے گئے جہاں لاش لٹکائی گئی تھی اور میں شیر کی ہمت دیکھ کر حیران ہوا کہ شیر نے کتنی محنت سے لاش پائی ہوگی۔ پھٹا ہوا کمبل زمین سے کم از کم 25 فٹ اونچائی پر تھا اور درخت پر لگے ناخنوں کے نشانات اور نرم زمین کی حالت اور جھاڑیوں کی حالت سے اندازہ ہوا کہ شیر کم از کم بیس مرتبہ درخت سے گرا ہوگا کہ پھر اس نے جا کر کمبل پھاڑا اور لاش نکالی ہو گی۔
----
شیر سنگھ کو دنیا کی کوئی فکر نہ تھی اور اس سے زیادہ خوش بچہ پورے گاؤں میں نہ تھا۔ جب بھی وہ نظروں سے اوجھل ہوتا تو اس کی آواز سنائی دیتی کہ اسے گانے کا بہت شوق تھا۔ ان کے مویشیوں میں چار بیل، بارہ گائیں ، آٹھ بچھڑے اور لالو نامی ایک بیل تھا جو اس کی خصوصی توجہ کا مرکز تھا۔ ہر صبح دودھ دوہنے کے بعد وہ باڑے کا دروازہ کھول کر جانوروں کو باہر نکالتا اور پھر باڑے کی صفائی میں لگ جاتا۔ جب ناشتے کا وقت ہوتا تو کنٹھی یا پنوا اسے بلاتے اور وہ دودھ کا کنستر اٹھا کر گھر کو بھاگتا۔ ناشتے میں تازہ چپاتیاں اور دال ہوتی جس میں خوب ہری مرچیں اور نمک ہوتا اور دال سرسوں کے تیل میں پکی ہوتی۔ ناشتے کے بعد گھر کے دیگر چھوٹے موٹے کام کرکے وہ دن کے اصل کام کو نکلتا۔
----
ہرکور اور کنٹھی کے گاؤں دناگری پہاڑ کے دامن میں ایک دوسرے سے چند میل کے فاصلے پر تھے۔ دونوں نے پہلی بار ایک دوسرے کو تب دیکھا جب دونوں رشتہ داروں اور دوستوں کے مجمع میں دلہا دلہن بنے۔ یہ دن ان کی یادداشت میں ہمیشہ یاد رہے گا کہ اس روز انہوں نے حلوہ پوری اتنی زیادہ کھائی کہ ان کے ننھے ننھے پیٹ پھٹنے کو آ گئے۔ یہ دن ان کے باپوں اور گاؤں کے بنیوں کو بھی ہمیشہ یاد رہے گا کہ بنیئے نے، جوکہ ان کا مائی باپ ہے، اُن کی مجبوری کو سمجھا اور چند روپے قرض دیئے۔ ان روپوں کی مدد سے ہی وہ اپنے بچوں کی شادی اس عمر میں کرنے کے قابل ہوئے کہ جس عمر میں بچوں کی شادی ہو جانی چاہیئے۔ اس خوش نصیب دن کا انتخاب گاؤں کے پنڈت نے کیا۔ بنیئے نے اپنے رجسٹر میں ان کے نام درج کر دیئے۔ بے شک پچاس فیصد سود بہت مہنگا تھا لیکن اس کی ادائیگی بھی لازمی تھی کہ دیگر بچے بھی جلد ہی شادی کی عمر کو پہنچنے والے تھے۔ ان کی بار بھی بنیا ہی کام آتا۔
------
شادی کی تقریب گاؤں کے وسط میں میدان میں ہو رہی تھی اور ہزاروں مہمان جمع تھے۔ جب سلطانہ ڈاکو تیز روشنی کے دائرے میں داخل ہوا تو اس کی وضع قطع سے لوگ گھبرا گئے۔ مگر سلطانہ نے انہیں بیٹھے رہنے کا کہا اور بولا کہ اگر اس کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے تو کسی کو کوئی خطرہ نہیں۔ پھر اس نے گاؤں کے نمبردار اور دولہے کے باپ کو بلا کر بولا کہ یہ خوش حالی کا وقت ہے اور تحفے دینے اور لینے کا بھی۔ اس لیے وہ نمبردار کی حالیہ خرید کی گئی بندوق اپنے لیے اور اپنے آدمیوں کے لیے دس ہزار روپے چاہتا ہے۔ فوراً سے بیشتر بندوق اور دس ہزار روپے پیش کیے گئے اور مجمعے کو شب بخیر کہتے ہوئے سلطانہ اور اس کے آدمی چلے گئے۔ اگلی صبح جا کر سلطانہ کو علم ہوا کہ اس کے نائب پہلوان نے دلہن اغوا کر لی تھی۔ سلطانہ کسی قیمت پر خواتین کی بے حرمتی برداشت نہیں کرتا تھا چنانچہ اس نے پہلوان کو سخت سزا دی اور دلہن کو اس تکلیف کے بدلے مناسب تحائف کے ساتھ واپس بھیج دیا۔
بدھو نہ صرف کم گو تھا بلکہ کبھی مسکرایا بھی نہیں تھا۔
جب میں نے اسے بتایا کہ وہ انہیں جلانا نہیں چاہتا تو اپنے پاس رکھ لے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر میرے پاؤں چھوئے اور جب سیدھا ہو کر گھر جانے کو مڑا تو اس کے کوئلے سے بھرے چہرے سے آنسوؤں کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔
تین نسلوں سے غلامی کی زنجیر میں جکڑا ایک انسان آزاد ہوا مگر لاکھوں ابھی تک قید تھے۔ مگر مجھے اس سے زیادہ کبھی خوشی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی الفاظ بدھو کے خاموش جذبات کی ترجمانی کر سکتے تھے جب وہ آنسو بھری آنکھوں سے ٹھوکریں کھاتا اپنی بیوی کو یہ بتانے گیا کہ بنیئے کا ادھار اتر چکا ہے اور اب وہ آزاد ہیں۔
-----
تیز ہواؤں سے آگ درخت کی مخالف سمت بڑھنے لگی اور آٹھ گھنٹے بعد جب تیز بارش اورژالہ باری سے آگ بجھی تو کئی مربع میل کا جنگل جل کر تباہ ہو چکا تھا۔ آدم خور کے سلسلے میں یہ اس شکاری کا پہلا اور آخری تجربہ تھا جس میں وہ پہلے زندہ جلنے اور پھر ٹھٹھر کر مرنے سے بال بال بچا۔ اگلی صبح جب وہ تھکا ہارا ایک راستے سے نینی تال لوٹ رہا تھا تو میں اس سے بے خبر دوسرے راستے سے وہاں جا رہا تھا۔ میری درخواست پر دیہاتی مجھے اس درخت کو لے گئے جہاں لاش لٹکائی گئی تھی اور میں شیر کی ہمت دیکھ کر حیران ہوا کہ شیر نے کتنی محنت سے لاش پائی ہوگی۔ پھٹا ہوا کمبل زمین سے کم از کم 25 فٹ اونچائی پر تھا اور درخت پر لگے ناخنوں کے نشانات اور نرم زمین کی حالت اور جھاڑیوں کی حالت سے اندازہ ہوا کہ شیر کم از کم بیس مرتبہ درخت سے گرا ہوگا کہ پھر اس نے جا کر کمبل پھاڑا اور لاش نکالی ہو گی۔
----
شیر سنگھ کو دنیا کی کوئی فکر نہ تھی اور اس سے زیادہ خوش بچہ پورے گاؤں میں نہ تھا۔ جب بھی وہ نظروں سے اوجھل ہوتا تو اس کی آواز سنائی دیتی کہ اسے گانے کا بہت شوق تھا۔ ان کے مویشیوں میں چار بیل، بارہ گائیں ، آٹھ بچھڑے اور لالو نامی ایک بیل تھا جو اس کی خصوصی توجہ کا مرکز تھا۔ ہر صبح دودھ دوہنے کے بعد وہ باڑے کا دروازہ کھول کر جانوروں کو باہر نکالتا اور پھر باڑے کی صفائی میں لگ جاتا۔ جب ناشتے کا وقت ہوتا تو کنٹھی یا پنوا اسے بلاتے اور وہ دودھ کا کنستر اٹھا کر گھر کو بھاگتا۔ ناشتے میں تازہ چپاتیاں اور دال ہوتی جس میں خوب ہری مرچیں اور نمک ہوتا اور دال سرسوں کے تیل میں پکی ہوتی۔ ناشتے کے بعد گھر کے دیگر چھوٹے موٹے کام کرکے وہ دن کے اصل کام کو نکلتا۔
----
ہرکور اور کنٹھی کے گاؤں دناگری پہاڑ کے دامن میں ایک دوسرے سے چند میل کے فاصلے پر تھے۔ دونوں نے پہلی بار ایک دوسرے کو تب دیکھا جب دونوں رشتہ داروں اور دوستوں کے مجمع میں دلہا دلہن بنے۔ یہ دن ان کی یادداشت میں ہمیشہ یاد رہے گا کہ اس روز انہوں نے حلوہ پوری اتنی زیادہ کھائی کہ ان کے ننھے ننھے پیٹ پھٹنے کو آ گئے۔ یہ دن ان کے باپوں اور گاؤں کے بنیوں کو بھی ہمیشہ یاد رہے گا کہ بنیئے نے، جوکہ ان کا مائی باپ ہے، اُن کی مجبوری کو سمجھا اور چند روپے قرض دیئے۔ ان روپوں کی مدد سے ہی وہ اپنے بچوں کی شادی اس عمر میں کرنے کے قابل ہوئے کہ جس عمر میں بچوں کی شادی ہو جانی چاہیئے۔ اس خوش نصیب دن کا انتخاب گاؤں کے پنڈت نے کیا۔ بنیئے نے اپنے رجسٹر میں ان کے نام درج کر دیئے۔ بے شک پچاس فیصد سود بہت مہنگا تھا لیکن اس کی ادائیگی بھی لازمی تھی کہ دیگر بچے بھی جلد ہی شادی کی عمر کو پہنچنے والے تھے۔ ان کی بار بھی بنیا ہی کام آتا۔
------
شادی کی تقریب گاؤں کے وسط میں میدان میں ہو رہی تھی اور ہزاروں مہمان جمع تھے۔ جب سلطانہ ڈاکو تیز روشنی کے دائرے میں داخل ہوا تو اس کی وضع قطع سے لوگ گھبرا گئے۔ مگر سلطانہ نے انہیں بیٹھے رہنے کا کہا اور بولا کہ اگر اس کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے تو کسی کو کوئی خطرہ نہیں۔ پھر اس نے گاؤں کے نمبردار اور دولہے کے باپ کو بلا کر بولا کہ یہ خوش حالی کا وقت ہے اور تحفے دینے اور لینے کا بھی۔ اس لیے وہ نمبردار کی حالیہ خرید کی گئی بندوق اپنے لیے اور اپنے آدمیوں کے لیے دس ہزار روپے چاہتا ہے۔ فوراً سے بیشتر بندوق اور دس ہزار روپے پیش کیے گئے اور مجمعے کو شب بخیر کہتے ہوئے سلطانہ اور اس کے آدمی چلے گئے۔ اگلی صبح جا کر سلطانہ کو علم ہوا کہ اس کے نائب پہلوان نے دلہن اغوا کر لی تھی۔ سلطانہ کسی قیمت پر خواتین کی بے حرمتی برداشت نہیں کرتا تھا چنانچہ اس نے پہلوان کو سخت سزا دی اور دلہن کو اس تکلیف کے بدلے مناسب تحائف کے ساتھ واپس بھیج دیا۔
Book Attributes | |
Pages | 315 |