-25 %
Sold Out
Mushtaq Ahmad Yusufi Kuch Yadain Kuch Batain - مشتاق احمد یوسفی - کچھ یادیں کچھ باتیں
- Writer: Mushtaq Ahmad Yusufi
- Category: Urdu Adab
- Pages: 576
- Stock: Sold Out
- Model: STP-5035
- ISBN: 978-969-841-145-4
Rs.1,350
Rs.1,800
مشتاق احمد یوسفی کا نام کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے ان کے بارے میں بجا کہا تھا کہ "ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔ "اردو مزاح کا یہ درخشاں ستارہ سال 2018ء میں ہم سے جدا ہوگیا۔ ان کے بارے میں مبشر زیدی نے کیا خوب کہا ہے کہ "بڑے ادیب مرتے نہیں بس لکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔" یہ بات سو فیصد درست ہے۔ یوسفی صاحب جیسے مزاح نگار کبھی نہیں مرتے۔ وہ اپنی کتابوں کی صورت، کتابوں میں لکھے انمول جملوں کی صورت ہم میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اردو ادب کے قاری کے لیے یوسفی کا نام کبھی بھی انجان نہیں رہا۔
مشتاق احمد یوسفی کی وفات کے بعد "امر شاہد" نے ایک کتاب "مشتاق احمد
یوسفی کچھ یادیں کچھ باتیں" کے عنوان سے مرتب کی ہے۔ جس میں دورِ حاضر کے
نامور ادیبوں نے مشتاق احمد یوسفی کے بارے میں مضامین لکھے ہیں۔ جن میں شان
الحق حقی، سیّد ضمیر جعفری، مجنون گورکھپوری، طارق حبیب اور رضا علی عابدی
جیسے ادیبوں نے مشتاق احمد یوسفی کے بارے میں لکھا۔ جو لوگ آج تک یوسفی
کے نام سے ناواقف ہیں (حالانکہ ایسا ممکن نہیں) وہ یہ کتاب پڑھ کر یقیناً
یوسفی صاحب کی تمام کتابیں خریدنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ طارق حبیب اپنے
مضمون "شخصی اور ادبی سوانح" میں لکھتے ہیں:
"یہ اردو زبان کی خوش قسمتی ہے کہ مشتاق احمد یوسفی جیسا ادیب اور دانشور
اسے میسر آیا۔ تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ ناقدینِ فن کا اس امر پر اتفاق
بھی ہے کہ مشتاق احمد یوسفی اردو زبان و ادب کے بے مثال ادیب ہیں۔ کسی ادیب
کی اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا عہد اسے محبت اور
اخلاص سے اپنائے اور اپنا سرمایہ تسلیم کرلے۔"
یہ حقیقت ہے کہ یوسفی ایک عہد ہیں اور اردو و ادب کے لیے ان کی خدمات
ناقابلِ فراموش ہیں۔ اس کتاب کے ہر ایک مضمون ہر ایک خاکے میں ہمیں ان کی
شخصیت کی نئی پرتیں کھلتی نظر آتی ہیں۔
سیّد ضمیر جعفری اپنے مضمون "اردو ادب کا مسکراتا ہوا فسلفی" میں لکھتے ہیں:
"یوسفی کی ظرافت کے بارے میں میرا کچھ کہنا کسی بھیڑیے کا "سبزی خور" کے
حق میں ریزرویشن پاس کرنے کے مترادف ہوگا۔ ہم یوسفی کو اس دور کے مزاح
نگاروں کا "مہاراج ادھیرج" اور "زلیخائے ظرافت" کا یوسف سمجھتے ہیں۔"
امر شاہد کی کتاب کی خوبصورتی یہ ہے کہ انہوں نے تمام مضامین، خاکوں،
نگارشات، بزبانِ یوسفی اور انٹرویوز کو بہت سلیقے سے ترتیب دیا ہے۔ کتاب
میں "الوداع یوسفی" کے نام سے بھی مضامین موجود ہیں جو ان کے دارِ فانی کوچ
کر جانے کے بعد دوست احباب نے لکھے ہیں۔
کتاب میں مشتاق احمد یوسفی کی تصاویر بھی موجود ہیں جو ان کے مختلف
سیمینار یا کسی تقریب کے دوران لی گئی ہیں۔ اس طرح یہ کتاب ہمیں شروع میں
ہی اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
الوداع یوسفی میں معروف شاعر امجد اسلام امجد کا ایک مضمون "یوسفی صاحب" ہےجس میں وہ لکھتے ہیں:
"مشتاق احمد یوسفی ایک روایت کے مطابق "یوسفی" تو یوسف زئی قبیلے سے اپنے
نسلی تعلق کی وجہ سے بنے لیکن ان کی تحریر میں جو حسن ہے اس کا سلسلہ ضرور
کہیں نہ کہیں حضرت یوسف علیہ السلام سے ملتا ہوگا کہ فی زمانہ "حسنِ یوسف "
کا اس سے بہتر استعارہ شاید اور کوئی بھی نہیں۔
"
یوسفی کی تحریر کا کمال یہ ہے کہ اس کے ہر ایک لفظ میں مزاح ہے، قاری ان
کی تحریر کو پڑھتے وقت بے ساختہ قہقہے لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ وہ ایسی
خوبصورتی سے لکھتے ہیں کہ پڑھنے والا اس منظر میں جینے لگتا ہے۔
زاہدہ حنا ان کے اسی فن کے بارے میں اس کتاب کے مضمون "مطلق العنانیت، انصاف کا ترازو اور یوسفی صاحب" میں لکھتی ہیں:
یوسفی صاحب لفظوں کی دیپ مالا لیے آئے اور انہوں نے طنز و مزاح کی گردن
میں لفظوں کی یہ مالا ڈال دی۔ ان کے مدّاح ان کے لکھے ہوئے ہر لفظ کو سر
آنکھوں پر رکھتے اور سوچتے ہیں کہ اس سینک سلائی مولا بتی جیسے شخص کے
اندر طنز و مزاح کا جھرنا کہاں سے پھوٹتا ہے جو انہیں شرابور اور سرشار
کردیتا ہے۔"
یوسفی کی خوبی یہ ہے کہ وہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے ان کو اس کی مکمل
معلومات ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا مزاح بھرپور ہوتا تھا۔ اپنی کتاب
"آبِ گم" میں ملکی سیاست پر روشنی ڈالتے ہوئے ہمارے ڈکٹیٹروں کا ذکر کس
قدر معصومیت سے کرتے ہیں:
"ڈکٹیٹر خود نہیں آتا، لایا اور بلایا جاتا ہے اور جب آتا ہے تو قیامت
اس کی ہم رکاب ہوتی ہے۔ پھر وہ روایتی اونٹ کی طرح بدوؤں کو خیمے سے نکال
باہر کرتا ہے۔"
یہ یوسفی کا ہی کمال تھا کہ وہ ہر موضوع پر قلم اٹھالیتے تھے اور کوئی بھی
ان کی بات کا برا نہ مناتا بلکہ جن کے بارے میں بات کہی جاتی تھی وہ بھی
ان کی باتوں کا لطف اٹھایا کرتے تھے۔ کتاب کے آخر میں آپ کو ان کی تمام
کتابوں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آبِ گم اور شام شعرِ یاراں کے چمکتے
جملے ملیں گے، وہ جملے جو بہت مشہور ہوئے۔ مثلاً
"اگر کوئی جھوٹ بھی اڑا دے کہ لاہور میں اولے پڑے ہیں تو زندہ دلانِ کراچی فوراً سر منڈا لیتے ہیں۔" (چراغ تلے)
"پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہے۔" (آبِ گم)
"ساس، سسر، موسم اور حکومت کے خلاف لکھنے کے لیے دماغ پر زیادہ زور نہیں دینا پڑتا۔ " (شامِ شعرِ یاراں)
"دشمنوں کے حسبِ عداوت تین درجے ہیں۔ دشمن جانی، دشمن اور رشتے دار۔" (زرگزشت)
Book Attributes | |
Pages | 576 |