Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Parda Magar Kis Had Tak? - پردہ مگر کس حد تک

Parda Magar Kis Had Tak? - پردہ مگر کس حد تک
-40 %
Parda Magar Kis Had Tak? - پردہ مگر کس حد تک
Rs.300
Rs.500
عورت ہمیشہ سے مرد کے لیے ایک چیلنج رہی ہے۔ قدیم تہذیبوں نے، جہاں اس چیلنج کو قبول کرنے کا یارا نہ تھا، عورت کو سماجی منظرنامے سے ہٹانے میں ہی عافیت جانی۔ کہیں دل میں اس کا خیال آنا ہی اہل تقویٰ کے لیے باعث نفریں ہوا، جیسا کہ بدھ بھکشوؤں نے عورت کے سلسلے میں رویہ اختیار کیا اور کہیں عورت سے قطع تعلقی اور جنسی زندگی کے انکار کو تقویٰ کی معراج سمجھا گیا،جیسا کہ عیسائی خانقاہوں میں ہوا۔ البتہ اسلام نے اہل ایمان عورتوں کو اہل ایمان مردوں کی سطح پر نہ صرف یہ کہ کھلے دل سے قبول کیا بلکہ عام چلتی پھرتی زندگی میں بھی اس کے سماجی رول پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔ جہاں مردوں کے لیے تقویٰ شعار زندگی کا ایک ضابطۂ حیات مرتب کیا وہاں عورتوں کے لیے بھی خدا شعار زندگی کے لیے واضح ہدایت نامے دیئے گئے۔ جہاں مردوں کو غض بصر کی تلقین کی گئی وہیں عورتوں کو سماجی زندگی میں پاکیزہ اور تقویٰ شعار رویے کی تلقین کی گئی۔ حسن و جمال کے غیرضروری اظہار اور اس کی فتنہ انگیزیوں سے متنبہ کرایا گیا اور ساتھ ہی اس مقصد کے لیے احکاماتِ جلباب ”الا ماظھر منھا“ کی گنجائش کے ساتھ ان کے لیے لازم قرار پایا۔ البتہ پردے یا حجاب کے ان احکامات نے عہد رسولؐ کی سوسائٹی میں مسلم خواتین کو کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ یہ احکامات سماجی زندگی سے ان کے انخلاء کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ بعد کے عہد میں جب رفتہ رفتہ مسلم معاشرے میں اخلاقی زوال کے آثار نظر آنے لگے تو بعض فقہاء نے اس صورت حال کا حل یہ نکالا کہ عورت کی سماجی چلت پھرت پر پابندیاں عائد کر دی جائیں کہ ان کے نزدیک معاشرے کو فتنہ سے بچانے کا یہی ایک راستہ تھا۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عورت کو پردے کے نام پر ملفوف کرنے، اس کے رول کو گھر کی چہار دیواری تک محدود کرنے کے بجائے مردوں کے اصلاحِ احوال پر توجہ دی جاتی کہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو ہم پردے کے نام پر اپنی نصف آبادی کو ناکارہ بنائے دینے کے مرتکب نہ ہوتے۔ عہد رسولؐ میں اگر عورتوں پر عام مومن مردوں کی طرح مسجدوں کے دروازے کھلے تھے تو یہ عورتوں کا ایک ایسا سماجی حق تھا جسے چھین لینے کا اختیار بعد کے فقہاء کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ خدا اور اس کا رسولؐ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ مسجدوں میں عورتوں کی چلت پھرت فتنہ کا باعث ہو گی یا اس کے نتیجے میں ایک ایسا تقدیسی معاشرہ وجود میں آئے گا جس میں مرد اور عورت یکساں طور پر مسجد کی برکات سے مستفید ہوں گے۔
زیر نظر کتاب اسی حساس اور نازک مسئلہ پر امت کو افراط و تفریط سے بچانے کی ایک کوشش ہے جس میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ خالص قرآنی دائرہ فکر میں اس مسئلہ کا محاکمہ ہو اور پردے کے بارے میں بلا کم و کاست وہی موقف اختیار کیا جائے جو قرآن کا مطلوب و مقصود ہے اور جس پر عہد رسول کے مدنی معاشرے سے تاریخ کی شہادت ملتی ہو۔ بھلا جس دین کی تاریخ میں عورت نے کلیدی رول ادا کیا ہو اسی دین کے ماننے والے آئندہ صدیوں میں خود اپنی تاریخ سے کیسے انکار کر سکتے ہیں۔ محمدؐ پر سب سے پہلے ایمان لانے والا کوئی اور نہیں ایک عورت خدیجہ بنت خویلد تھیں، جن کے بارے میں رسول اللہ کہا کرتے تھے کہ وہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب دوسروں نے ایمان میں پس و پیش کیا اور انہوں نے اس وقت میری حوصلہ افزائی اور دلجوئی کی جب دوسروں نے مجھ سے بے تعلقی برتی۔ اسلام کی راہ میں پہلی جان دینے والی بھی عورت ہی تھی جسے تاریخ سمیہ کے نام سے جانتی ہے۔ بیعتِ عقبیٰ اولیٰ اور ثانیہ جس میں خطرے میں گھرے اسلام کے مستقبل کے لیے مارنے مرنے کی قسمیں کھائی گئیں اس پرخطر مجلس میں بھی عورتیں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ اسلام کے سماجی منظر نامے سے عورت کا انخلاء ناممکن ہے۔ صرف سیدہ عائشہ کو منظرنامے سے ہٹا دیجئے تو اسلامی فکر اپنے ایک مستند اور عظیم شارح سے محروم ہو جاتی ہے۔ بڑے بڑے صحابہ مختلف امور پر ان کی مشاورت اور ان سے اکتساب فیض کے لیے مجبور نظر آتے ہیں۔ سیدہ عائشہ کی ذات ایک ایسی کلیدی علامت کی حامل ہے جس نے بالکل ابتدائی عہد میں پدرانہ روایتی معاشرے کو یہ باور کرا دیا تھا کہ اب اسلام کی آمد کے بعد کسی کا فہم و تدبر صرف اس لیے ساقط الاعتبار نہیں قرار دیا جا سکے گا کہ وہ عورت ہے۔ آپ نے نہ صرف یہ کہ قرنِ اول کے مدنی معاشرے پر ایک خاتون، مفکر، مبلغ اور معلم کے تصور کو قبولیت عامہ عطا کیا بلکہ حساس سماجی امور اور سیاسی مسائل پر عملی قیادت بھی فراہم کی۔ گو کہ رسولؐ اللہ کی ازواج مطہرات اور بھی تھیں لیکن سیدہ عائشہ کو جو سماجی مرتبہ حاصل تھا وہ ان کے فہم و تدبر کی وجہ سے تھا۔ عام طور پر یہ فرضی حدیث سامنے لائی جاتی ہے کہ عورتیں ناقص العقل والدین ہوتی ہیں لیکن کیا دنیا کے کسی بڑے سے بڑے مرد کویہ جرأت ہو سکتی ہے کہ وہ سیدہ عائشہ کے فہم دین کو چیلنج کر سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ مجموعی طور پر عورتوں نے دین کے معاملے میں مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بیدار ذہنی کا ثبوت دیا ہے۔ حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ مردوں کے حلقے سے ایسے بے شمار کذاب و مفتری پیدا ہوئے جنہوں نے خود ساختہ حدیثوں کے انبار لگا دیے لیکن حیرت انگیز طور پر مجھے عورتوں میں ایسی کوئی راویۂ حدیث نہیں ملی جس پر جھوٹی حدیثیں گھڑنے کا الزام عائد کیا گیا ہو۔ پھر آخر کیا وجہ ہےکہ مسلم معاشرے میں عورتوں کی صلابت فکر پر اعتماد متزلزل ہے؟
قرآن مجید تو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ قبول حق کے لیے محض عورت یا مرد ہونا کوئی وجہ نہیں بن سکتی۔ ملکۂ سبا تک جب دعوت حق پہنچی اور سلیمانؑ کا رسول برحق ہونا اس پر واضح ہو گیا تو وہ بلا کسی پس وپیش ”انی آمنت برب سلیمان“ پکار اٹھی۔ لیکن جب یہی دعوت موسیٰ ؑ کی زبانی فرعون جیسے مرد تک پہنچی تو وہ اس دعوت کا انکاری ہو گیا۔ ملکۂ سبا کی قیادت میں پوری قوم دائرہ توحید میں داخل ہو گئی جب کہ فرعون مردانہ قیادت اس کے حواریوں کے لیے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث ہوئی۔ گویا محض کسی کا عورت ہونا تقویٰ شعاری کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا۔ قرآن نے ملکۂ سبا کی سلیم الفطرت شخصیت کو جس طرح سراہا ہے اسلامی تاریخ پر اس کے دور رس اثرات پڑتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرے میں عورت کی سیاسی قیادت کوئی اعجوبہ شے نہیں رہی ہے۔ جنگ جمل میں سیدہ عائشہ کی سیاسی قیادت سے عورت کی جس حیثیت کا ظہور ہوا تھا وہ سلسلہ کبھی بھی رکا نہیں ہے۔ جو لوگ بے نظیر بھٹو کو مسلم تاریخ میں پہلی وزیر اعظم کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں اور جو اس عمل کو مغربی تعلیم و ثقافت کا مرہونِ منت بتاتے ہیں وہ دراصل ہماری تاریخ سے ناواقف ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے زوال کے عہد میں بھی ایسی خواتین کی کمی نہیں رہی ہے جنہوں نے عین بحرانی لمحات میں امت کی کمان سنبھالے رکھی ہے۔ عصمت الدین، جو تاریخ کے صفحات میں شجرۃ الدر کے نام سے جانی جاتی ہیں، نے اپنے شوہر صلاح الدین کی موت کے بعد عین صلیبی جنگوں کے دوران نہ صرف یہ کہ اپنی شوہر کی موت کو پوشیدہ رکھا بلکہ تمام فوجی کاررائیوں کی کمان کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ اسی صلیبی جنگ میں ایک مسلم عورت کی قیادت میں شاہ فرانس لوئس نہم کی گرفتاری عمل میں آئی اور پھر شجرۃ الدر نے باقاعدہ فتح کے بعد اپنی سربراہی کا اعلان کیا۔ جمعہ کے خطبوں میں شجرۃ الدر کا نام پڑھا جاتا اور سکوں پر اس کے فرمان جاری ہوتے۔ تیرہویں صدی میں ممالک اسلامیہ میں خواتین سربراہوں کے بہت سے نام سنائی دیتے ہیں۔ دہلی میں رضیہ سلطانہ اور وسط ایشیاء میں ترکان خاتون، صفوۃ الدین ملک خاتون، ساتی بک خان اور تندو کے نام نمایاں ہیں۔ اسی عہد میں انڈونیشیا میں تاج عالم اور نور عالم کے نام سے خاتون حکمرانی کا منظر سامنے نظر آتا ہے۔ ایک ایسے سماجی منظر نامے میں آخری عہد میں بیگم بھوپال جیسی خاتون کا سامنے آنا ہماری تاریخ میں کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ یہ دراصل ملکہ سبا سے متعلق ان قرآنی بیانات کے اثرات ہیں جس میں اس کی ستائش کی گئی ہے۔ حیرت ہے کہ ایک ایسی کتاب کے حاملین آج اجنبی ثقافت کے زیر اثر عورت سے اس کا بھرپور اسلامی رول چھین لینا چاہتے ہیں۔ طرفہ تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ وہ اسلام کے نام پر کرنا چاہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب دراصل اسی خلط مبحث سے بچانے کی ایک کوشش ہے۔
✍️راشد شاز
Book Attributes
Pages 71

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good