Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Bandar Baant - بندر بانٹ

Bandar Baant - بندر بانٹ
Bandar Baant - بندر بانٹ
Bandar Baant - بندر بانٹ
-25 %
Bandar Baant - بندر بانٹ
Bandar Baant - بندر بانٹ
Bandar Baant - بندر بانٹ
Bandar Baant - بندر بانٹ
Rs.750
Rs.1,000

عصر حاضر کے پاکستان کو سمجھنے کے لیے بہترین کتابوں میں سے ایک
BIG CAPITAL IN AN UNEQUAL WORLD: THE MICROPOLITICS OF WEALTH IN PAKISTAN BY ROSITA ARMYTAGE
داناؤں کا قول ہے کہ جب آپ اپنی تاریخ خود نہیں لکھیں گے تو کوئی دوسرا یہ کام کرے گا۔ وطن عزیز میں مسخ شدہ تاریخ کے ذریعے نوجوانوں کو لوری دے کر سلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے تاکہ وہ حقیقت سے غافل رہیں اور اس کی آڑ میں سرمایہ داروں، جاگیر داروں، تمن دار اور نوکر شاہی قومی وسائل پر ہاتھ صاف کر کے اپنی عیاشیوں کا سامان کرتے رہیں۔ لیکن خدا کی قدرت ہے کہ جب آپ حقیقت کو چھپانے یا مسح کرنے کی کوشش کریں گے تو کہیں نہ کہیں سے محکوم طبقہ کو اس کا سراغ لگ ہی جائے گا۔ آج کل وطن عزیز پر بھی یہ بات درست ثابت آتی ہے جہاں قصیدہ گو مورخین اور فتوی فروش فقیہوں نے حقائق کو مسخ کرنے کی کمینگی کی ہے۔ وہاں بعض ملکی / غیر ملکی محققین نے اشرافیہ کی منافقت کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں خورشید کمال عزیز کی کتاب " تاریخ کا قتل " ، وکیل انجم کی سیاست کے فرعون " اور ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی "خاکی وردی " جیسے درخشاں نام شامل ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ نام نہاد ترقی پسند قلمکاروں نے اپنے سابقہ آقاؤں اور موجودہ حکمرانوں کی چیرہ دستیوں اور کالے کرتوتوں کو مصلحت کے پردے میں چھپانے کی کوشش کی ہے لیکن یہ قارئین کہ ایک محدود حلقہ تک محدود رہی۔ اس کے برعکس حق و صداقت کے علمبردار محققین نے پوری ایمانداری اور فرض شناسی سے سیاستدانوں اور فوجی و شہری نوکر شاہی کے گٹھ جوڑ کو طشت از بام کر کے عوام کو حقیقت سے روشناس کرنے کی کوشش کی ہے جن کو وطن عزیز میں اچھی خاصی پذیرائی ملی ہے کیونکہ ان صاحب نظر لوگوں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے حقائق کو طشت از بام کر کے اشرافیہ کی منافقت کا پردہ چاک کر کے انقلاب کی راہ ہموار کی ہے۔ ان میں فاضل مصنفہ روزیٹا آرمیٹیج بھی شامل ہے جس نے اپنے علمی منصوبے پر کام کرنے کے دوران پورے ملک کے سیاسی، صنعتی، فوجی، علمی اور کاروباری حلقوں کا بغور مشاہدہ کر کے حقیقت کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے جس کو تعلیمی اور صحافتی شعبدہ بازی کے ذریعے عوام الناس سے چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ فاضل مصنفہ نے مذکورہ بالا حلقوں کے سرکردہ لوگوں سے ملاقاتوں کے علاوہ ان خاندانوں کی مختلف سماجی تقریبات میں بھی شرکت کی جس سے اس پر اشرافیہ کے خاص پہلو آشکار ہوئے کہ کس طرح یہ لوگ خود کو عوام الناس اور باقی طبقات سے بالا تصور کرتے ہیں۔ یہی بالا دستی اور احساس برتری کا تصور ایک زہر آلود خنجر ہے جو خلق خدا کی رگِ جاں میں اترا ہوا ہے علی فاضل مصنفہ نے اپنے مشاہدہ سے واضح کیا کہ صنعتکار ، سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ کرنے کے بجائے فوجی افسر کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں شاید انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے اسی طبقہ کی وطن عزیز کے طول و عرض پر حکمرانی ہے ، باقی سب تو مہرے ہیں جو ان کے کہنے پر حرکت کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں مصنفہ نے سیالکوٹ شہر کو نوجوان فوجی افسروں کا سسرالی شہر قرار دیا ہے۔ خاندانی پس منظر کے پیش نظر یہ برطانوی سامراج کے قائم کردہ اداروں میں تعلیم حاصل کرتا ہے اور وہاں سے فارغ ہو کر ملک کے بڑے بڑے سیاسی، معاشی، صنعتی اور علمی کاروباری اور نوکر شاہی عہدوں پر براجمان ہو کر ایک خاص طبقہ کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اسی طرح یہ طبقہ اپنی عیاشیوں کا سامان کرنے کے لیے ملک میں بڑے بڑے کلبوں کی ممبر شپ حاصل کرتا ہے جہاں ہر امیر آدمی کو جانے کی اجازت نہیں خواہ اس کے پاس اربوں روپے ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ فاضل مصنفہ کے مطابق ان کلبوں کی رکنیت کے لیے خاص قسم کی پہچان درکار ہے اور یہ سہولت وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جن کی ماضی میں برطانوی حکمرانوں کے درباروں میں کسی نہ کسی حوالے سے رسائی رہی ہے۔ اس گروہ کے مقابلے میں امیر طبقہ جسے مصنفہ نوے راجے " کہہ کر پکارتی ہے نے اپنے احساس کمتری کو مٹانے / کم کرنے کے لیے سندھ اور پنجاب میں بڑے بڑے کلب قائم کر لیے جن کی فیس،،۔۔۔

Book Attributes
Pages 240

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good