Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Pur Aman Baqay Baham - پرامن بقائے باہم

Pur Aman Baqay Baham - پرامن بقائے باہم
Pur Aman Baqay Baham - پرامن بقائے باہم
Pur Aman Baqay Baham - پرامن بقائے باہم
-25 %
Pur Aman Baqay Baham - پرامن بقائے باہم
Pur Aman Baqay Baham - پرامن بقائے باہم
Pur Aman Baqay Baham - پرامن بقائے باہم
Pur Aman Baqay Baham - پرامن بقائے باہم
Rs.600
Rs.800

پر امن بقائے باہم کی پالیسی کیا ہے؟
اس کا مطلب یہ تسلیم کرنا ہے کہ دنیا میں مختلف سماجی اور معاشی نظام رکھنے والے ملک بیک وقت ہو سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ماننا ہے کہ چونکہ نئی سوشلسٹ ریاستیں پیدا ہو گئی ہیں اور پرانی سرمایہ دار ریاستوں کے پہلو بہ پہلو وہ بھی ترقی کر رہی ہیں اس لیے ان کے درمیان پر امن معاشی تعلقات اور باقاعدہ تجارتی و تہذیبی رابطے قائم ہو سکتے ہیں اور ہونا چاہئیں اور گرم جنگ کا تو ذکر ہی کیا سرد جنگ تک نہ ہونا چاہیے ۔ یہ اس بات کو ماننا ہے کہ وہ تمام تصادم اور جھگڑے جو ریاستوں کے درمیان ہوں مفاہمتی گفتگو کے ذریعے طے کیے جائیں جنگ کے ذریعہ نہیں۔ پر امن بقائے باہم کی پالیسی اس قطعی قابل احترام حق سے پیدا ہوتی ہے کہ ہر قوم خود اپنے لیے موزوں سماجی نظام کا انتخاب کر سکتی ہے۔ پر امن بقائے باہم کی صورت سرمایہ دار ملکوں کے اندر در میان پر امن بقائے باہم کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہے۔
مزدور طبقے کی پھیلتی ہوئی انقلابی تحریک کے لیے سازگار حالات پیدا کرتی ہے، نو آبادتی نظام کے خلاف اور آزادی اور خود مختاری کے حق میں کچلی ہوئی قوموں کی کامیاب جد و جہد کا راستہ ہموار کرتی ہے۔ مختلف سماجی نظاموں والی حکومتوں کے درمیان پر امن بقائے باہم عالمی میدان میں طبقاتی جد و جہد کی ایک مخصوص صورت ہے۔
یہ اس پالیسی کے بہت ہی عام خط و خال ہیں جس پر سوویت عوام اور ان کی حکومت 50 سال سے زیادہ سے ثابت قدمی کے ساتھ عمل پیرا ہے۔ پہلے پہل پر امن بقائے باہم کی پالیسی کا اعلان لینن نے کیا اور اس کو عملی طور پر ثابت بھی کیا۔

Book Attributes
Pages 166

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good