تقسیم کا کرب کسے بھولتا ہے۔ اور پھر جب یہ دکھ روح کے اندر حلول کر جائے تو عمر بھر کے روگ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ گلزار نے پاکستان کے شہر جہلم کے چھوٹے سے قصبہ دینہ سے کم عمری میں کی گئی ہجرت کا داغ ابھی تک سینہ سے لگا کر رکھا ہے۔ یہ محض اپنی جنم بھومی سے بچھڑنے کا درد نہیں بلکہ ان لاکھوں انسانوں کے خونی دریا سے تیر کر پار اترنے کا غم ہے جس سے اس دور کے شاہدین آج تک پیچھا نہیں چھڑا سکے- جب انسانوں نے وحشی کا روپ دھار کر اپنی ہم نسل انسانوں کے جسم و جاں سے کھیل کر گھٹیا پن کی تاریخی مثالیں قائم کیں۔
اگرچہ گلزار اس نسل کے آخری فرد ہیں جن کے جسموں سے زیادہ روحیں زخمی ہوئیں مگر ستر سال بعد بھی ان کے قدم زیرو لائن پر ثبت ہیں۔
انٹرویو، نظموں اور افسانوں سے مرتب یہ کتاب اسی سال پاکستان سے پہلی بار شائع ہوئی ہے۔ جن آنکھوں میں اب بھی آنسو باقی ہیں وہ اس کتاب کا بہتر مطالعہ کر سکتے ہیں !!
Book Attributes | |
Pages | 176 |