Menu
Your Cart
اگر آپ کی مطلوبہ کتاب ہماری ویب سائیٹ پرنہیں موجود تو براہ مہربانی ہمارے واٹس ایپ نمبر 03455605604 پر رابطہ کریں- شکریہ

Raam Devali Ka Wali - رام دیوالی کا ولی

Raam Devali Ka Wali - رام دیوالی کا ولی
-31 %
Raam Devali Ka Wali - رام دیوالی کا ولی
  • Category: Novels 
  • Pages: 344
  • Stock: In Stock
  • Model: STP-13082
Rs.1,250
Rs.1,800

پنجاب کے گائوں رام دیوالی کا مسلم نوجوان جب کالج داخل ہوا ،اُس وقت قراد داد پاکستان منظور ہوچکی تھی،مسلم حمایت جبکہ ہندو طلباء مخالفت میں تھے، ولی داد نے کالج میں مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھنا چاہی تو پرنسپل نے سرزنش کی ، وہ دفتر سے نکلا تو اسے محسوس ہوا کہ ہندو لڑکوں کے عزائم خطرناک ہیں قریب تھا کہ جھگڑا ہوتا، اس کے دوست دلیپ سنگھ نے دھمکی لگائی ولی داد سے بد تمیزی کی تومجھ سے برا نہ ہوگا، بانی پاکستان مجوزہ نئی مملکت کی حمایت کے لئے عوامی دورہ پر تھے۔
ایف ایس سی کے بعد اسے لاہور جبکہ اس کے دوست دلیپ سنگھ کو امرتسر میڈیکل کالج میں داخلہ ملا،دلیپ کا والد بڑا زمیندار اور اس کالنگر چلتا ، ہر مذہب کے لوگ کھانا کھاتے ،ولی داد معاشی مجبوریوں کی وجہ سے ایم بی بی ایس کی تعلیم کو خیر آباد کہہ کر ایک نیم سرکاری محکمہ میں بھرتی ہو گیا،اسکی پہلی پوسٹنگ فتح گڑھ ہوئی، وہاں دو مسلمان ملازم، اکرم سرگودھا دوسرا تفضل حسین بنگال سے تھا،پاکستان بننے میں بڑا پرجوش تھا،والدین نے ولی داد کی شادی کردی فتح گڑھ جاتے ہوئے دونوں میاں بیوی نے امرتسر میں دلیپ سنگھ کے ہاںقیام کیا،کھانے پر ہندوستان کے حالات زیر بحث رہے، دلیپ نے رخصت کرتے ہوئے کہا کہ شائد یہ ملاقات آخری ہو کیونکہ بٹوارہ کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف جو خوف ناک پلان ہے تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ریڈ کلف کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجہ میں جب ہنگامے پھوٹ پڑے،دونوں ملازم فیملی کے ساتھ فتح گڑھ تھے ،انھوںنے فیصلہ کیا کہ فوج کی نگرانی میںلاہور روانہ ہوا جائے وہ ٹرک جس پر اکرم اسکی بیوی ،بیٹا سوار تھا وہ خراب کیا ہوا بلوائیوں نے حملہ کر دیا،اکرم مارا گیا بیوی نے بچے کے ساتھ چھپ کر جان بچائی،ولی دا د نے اپنے گائوں میں پناہ دی۔
اسکی ڈیوٹی والٹن مہاجر کیمپ شعبہ آبادی کاری میں لگا دی ایک روز اپنی جیپ میں جارہا تھا ، ایک شخص کو حسرت و یاس کی تصویر بنے دیکھا وہ دوست کا والد دل جیت سنگھ تھا، ولی داد کو کہا تمہاری چچی مکئی میں چھپی ہے، دونوں کو سوار کرنے کے بعد دل نے کہا ان سے اکرم کا بدلہ لو ،پھر سوچا بے بس سے انتقام کیسا،50 مربع، حویلی کا مالک زیورات ہی لے جا سکا،،انھیں امرتسر پہنچایا، شہر ننگی جارحیت کی علمی تصویر تھا ہر طرف بے گوروکفن مسلمانوں کی لاشیں تھیں۔ دوست ڈاکٹردلیپ نے خط کے ذریعہ ولی داد کو اطلاع دی ,4جون1984ہندوستان کی15ہزار فوج نے آپریشن بلیو سٹارکی آڑ میں گولڈن ٹیمپل پر حملہ کردیا،ہماری حویلی زد میں آئی، والدین نے بچنے کے لئے مکئی کی فصل میں پناہ لی لیکن ہندوبلوائیوں نے ان پرتیل چھڑک کر آگ لگا دی،میرے والد دل جیت سنگھ کہتے اگر سکھ سیاستدان قائد اعظم کی بات مان لیتے تو پنجاب کابٹوارہ نہ ہوتا، کانگریس کے ساتھ مل کر پنجاب کی تقسیم کو قبول کیا، نہرو سرکار نے خالصتان کی تحریک جب دبانے کی کوشش کی تو ماسٹر تارا سنگھ کے ہوش ٹھکانے آگئے۔فرق اتنا کہ1947 میں امرتسر میں مسلمانوں کی اب سکھوں کی لاشیں بے گوروکفن گلیوں میں تھیں۔ بنگالی کولیگ تفضل حسین جب مشرقی پاکستان سے آتا خیر کی خبر کم ہی لاتا،کہتا کہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے علیحدگی کی تحریک عروج پر ہے، محترمہ فاطمہ جناح کی شکست،65 کی جنگ نے عوام کو بہت مایوس کیا،70کے سیلاب کے بعدمرکزی، صوبائی حکومت مشرقی عوام کے زخموں پر مرہم رکھتی تو قربتیں بڑھ جاتیں مگر یہ موقع ضائع کر دیا ۔ ولی داد مختلف مقامات پر تعینات رہا،دوران ملازمت اسکی زوجہ کینسر سے مقابلہ کرتے زندگی کی بازی ہار گئی،وہ بچوں سمیت تنہا رہ گیا، دفتر گیا توتحکمانہ انداز میں مشرقی پاکستان جانے کا کہا،ولی داد نے اپنی مجبوری ظاہر کی،آفیسر نے کہا تم حالات کی وجہ سے جانا نہیں چاہتے،یہ سن کر ولی دادآگ بگولہ ہوا۔ سر! میں نے مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن سے پاکستان کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا، زخمی ہوا، میرا خون بہا،جلسوں کی قیادت کی،اپنی زندگی دائو پر لگائی،آپ مجھ سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ مانگ رہے ہیں، جنہوں نے سنگین ترین حالات پیدا کئے ان سے کسی نے حب الوطنی کا سوال کبھی کیا ؟ سقوط ڈھاکہ پرتفضل حسین بہت رویا،ولی داد کو چشمہ کے مقام پر بنگلہ مہاجرین کے کیمپ میں تعینات کر دیا،1947 کے مہاجرین اور1971کے مہاجرین میں بہت فرق تھا،اول الذکر سب کچھ لٹا کر پاکستان آئے تھے،بعد الذکر ملک ٹوٹنے پر اپنی ہی سرزمین پر اجنبی ہوگئے تھے،آخری قافلہ میں اس کا دوست تفضل حسین نم آنکھوں کے ساتھ مستقلاً بنگلہ دیش چلا گیا۔ والٹن کیمپ میں ایک بچی روز آم کھانے کی ضد کرتی ولی داد نے آم دیئے وہ بہت خوش ہوئی، سربراہ نے بتایا کہ اس کادہلی میں کاروبار تھا، ہندوئوں نے مارکیٹ اور گھروں کو آگ لگادی،ہم جان بچا کر نکلے مگر میرا چھ ماہ بیٹا جھلس کر مر گیا، اس کی پوسٹنگ لاہور ہوئی ، 65 جنگ کے زخمی آفیسر نے جس نرس سے شادی کی وہ وہی بچی تھی اس کی ہمسائی بنی، کپتان 71 کی جنگ میں شہید ہواوہ بیوہ بن گئی۔
ولی داد نے محدود آمدنی میں بھی ایمانداری سے ملازمت کی،اللہ تعالی نے صلہ بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کی صورت میں دیا،اپنے کولیگ اکرم کی بیوی اور بیٹے کو اس نے بلوائیوں سے بچایا تھا، اُسی بیٹے کو فوج میں کمیشن مل گیا وہ ولی داد کا داماد بنا۔ ریٹائرڈمنٹ کے بعد انسانی خدمت کے لئے ایک ٹرسٹ بنا یا، رجسٹریشن کے لئے سوشلwelfare آفیسر کے پاس گیا،مخاطب ہوا امرتسر میں جس پر سکھ کرپان سے حملہ آور ہوئے، چیخ و پکار سن کر آپ نے حملہ آور پر فائر کیا اور جیپ میں سوار کرکے اِس کی جان بچائی تھی،وہ لڑکا میں ہی تھا۔ جب دل کا دورہ پڑا تو جس ڈاکٹر نے آپریشن کیا، معترف تھا اگر آپ کا ٹرسٹ میری مالی امداد نہ کرتا تو میں آج اس قابل نہ ہوتا، مالی امداد کے لئے میڈیکل کالج کے پرنسپل کو درخواست دی اُس وقت آپ تشریف فرماتھے ، یہ خدمت انجام دینے کا وعدہ آپ نے وفا کیا ۔
رام دیوالی کے اس بوڑھے کا دل جذبہ حب الوطنی، خدمت انسانی سے ہمیشہ لبریز رہا، ’’ اس کے مصنف پروفیسر محمد امتیاز رسول سرجن ڈاکٹر ہیں، اِنکی تصنیف ادب کا اعلیٰ شاہکار ہے، یہ ناول ایسا آئینہ ہے جس میںزندگی کے سارے روپ دیکھے جاسکتے ہیں، ادب دنیا میںمنفرد اضافہ ہے۔ نسل نو اس کا مطالعہ لازمی کرے۔

Book Attributes
Pages 344

Write a review

Note: HTML is not translated!
Bad Good