![Saraiki Main Heer Ranjha Kay Qison Ka Taqabli Mutalia Saraiki Main Heer Ranjha Kay Qison Ka Taqabli Mutalia](https://www.linkshop.pk/image/cache/catalog/books/saraiki-main-heer-ranjha-kay-qison-ka-taqabli-mutalia-550x550h.jpg)
![Saraiki Main Heer Ranjha Kay Qison Ka Taqabli Mutalia Saraiki Main Heer Ranjha Kay Qison Ka Taqabli Mutalia](https://www.linkshop.pk/image/cache/catalog/books/saraiki-main-heer-ranjha-kay-qison-ka-taqabli-mutalia-1-550x550w.jpg)
![Saraiki Main Heer Ranjha Kay Qison Ka Taqabli Mutalia Saraiki Main Heer Ranjha Kay Qison Ka Taqabli Mutalia](https://www.linkshop.pk/image/cache/catalog/books/saraiki-main-heer-ranjha-kay-qison-ka-taqabli-mutalia-80x80h.jpg)
![Saraiki Main Heer Ranjha Kay Qison Ka Taqabli Mutalia Saraiki Main Heer Ranjha Kay Qison Ka Taqabli Mutalia](https://www.linkshop.pk/image/cache/catalog/books/saraiki-main-heer-ranjha-kay-qison-ka-taqabli-mutalia-1-80x80w.jpg)
- Category: Urdu Adab
- Pages: 185
- Stock: In Stock
- Model: STP-13683
سرائیکی میں ہیر رانجھا کے قصوں کا تقابلی مطالعہ
دنیا کی تمام ترقی یافتہ زبانوں میں اُن کے لوک ادب کو ہمیشہ سے بنیادی اور کلیدی حیثیت کا حامل سمجھا جاتا رہا ہے۔ کوئی بھی زبان اپنے ارتقا کے ابتدائی مراحل میں اپنے لوک ادب سے ہی ترقی اور نمو پاتی ہے۔ لوک ادب کے لیے شاعری ہمیشہ سے اظہار و ابلاغ کا آسان اور پر لطف ذریعہ رہی ہے۔ عہد قدیم کے انسان کے پاس جب عہد جدید کے انسان کی مانند تفریحی مواقع میسر نہ تھے تو وہ ڈھولے اور پٹے وغیرہ گانے کے ساتھ ساتھ قصہ کہانی سن کر اپنے لیے تفریح وتفنن کے اسباب پیدا کرتا تھا۔ دنیا کے تمام محروم انسان اپنے جغرافیائی طبعی اور سماجی حالات سے قطعہ نظر ایک جیسے مسائل اور مصائب کا شکار رہے ہیں۔ ان کے دن فکر اور تلاش معاش میں اس طرح گزرتے کہ وہ اپنے ریزہ ریزہ وجود کو بمشکل مجتمع کر کے شام گئے گھر لوٹتے۔ دکھوں کی ماری اس زندگی میں نیند کا آجانا ایک تصور محال تھا۔ یہی وہ خلا تھا جسے قصہ گوئی نے لوک ادب سے کشید کی ہوئی روایات کا جامعہ پہنا کر پر کیا۔ یہ قصے محض تصوراتی اور خیالی روایات کی دنیاؤں تک محدود نہیں تھے بلکہ آج جب ہم ان قصوں کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی اہمیت اور افادیت ہم پر واضح ہو جاتی ہے۔
سرائیکی وادی سندھ کی قدیم زبان ہے، جس میں شاعری کی ایک مضبوط روایت پائی جاتی ہے۔ اس زبان کے شعری سرمائے میں مختلف اصناف سخن کا ذخیرہ موجود ہے۔ ان اصناف ادب میں منظوم عشقیہ داستانیں ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ سرائیکی زبان کی منظوم عشقیہ داستانیں نہ صرف مہمات اور عشق و محبت کے قصے بیان کرتی ہیں بلکہ ان میں جہاں ایک طرف ہماری تہذیبی زندگی کے رسم و رواج تاریخی حقائق انسانی رشتے جذبے دکھ سکھ عقائد قدرتی مناظر اور معاشرتی زندگی کی کئی صورتیں نظر آتی ہیں وہاں دوسری طرف زبان و بیان کردار نگاری واقعات نگاری مکالمہ نگاری تشبیہات و استعارات مافوق الفطرت عناصر اور تلمیحات کے بے مثل نمونے بھی ان داستانوں کے حوالوں سے ہمارے علم میں آتے ہیں۔ ڈاکٹر نصر اللہ خاں ناصر اپنے تحقیقی مقالے میں سرائیکی داستانوں کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : "ان قصوں میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں حقیقت نگاری کی گئی ہے۔ مافوق الفطرت واقعات کا بیان آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ زیادہ تر قصے اس دھرتی کےساتھ جڑے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ "
سرائیکی زبان میں منظوم عشقیہ داستانوں کی ایک شاندار روایت موجود ہے۔ سرائیکی شعراء نے سی پنوں، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال، سیف الملوک ،مرزا صاحباں، سہتی مراد، قصہ مصری بائی، قصہ حجمه سلطان، سمی راول اور زیبی راول وغیرہ جیسے علاقائی قصوں کے علاوہ قصہ لیلی مجنون، شیریں فرہاد اور یوسف زلیخا جیسے غیر علاقائی قصوں کو بھی منظوم جامہ پہنایا۔ سرائیکی زبان کے یہ سارے قصے اپنی دھرتی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ شیریں فرہاد ،لیلی مجنوں اور قرآنی قصہ یوسف زلیخا کا براہ راست سرائیکی دھرتی سے تعلق نہیں ہے لیکن سرائیکی شعراء نے کمال ہنر مندی سے ان قصوں کو خالص وسیبی رنگ میں رنگ کر اس طرح سے پیش کیا کہ اب یہ رومانہماری اپنی ہی دھرتی کے نظر آتے ہیں۔
سرائیکی علاقہ اپنی زرخیز دھرتی اور دریاؤں کی سرزمین ہونے کے ناطے ہمیشہ سے ایک بھر پور ثقافتی زندگی کا امین رہا ہے۔ سرائیکی علاقے میں بہنے والے ان دریاؤں کے دھاروں نے کئی رومانوی داستانوں کو بھی جنم دیا۔ دریا کی طوفانی موجوں اور نا قابل عبور طغیانیوں نے دریا کے اس پار لوگوں کے بارے میں ایک رومانوی تاثر کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ویسے بھی انسانی فطرت میں مصائب سے الجھنے اور نا قابل حصول منزلوں تک پہنچنے کی جستجو ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ انہی جذبات و احساسات کے زیر اثر چناب کے کنارے ایک داستان پروان چڑھی جس نے پورے شمالی ہندوستان کے لوگ ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ یہ داستان ہیر رانجھا کی ہے۔ اس داستان کے لافانی ہونے کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس قصے کو اس خطے کی تقریبا تمام مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ فارسی، ہندی اور انگریزی زبان کے شعراء نے بھی نظم کیا۔
سرائیکی زبان میں لکھے جانے والے " ہیر رانجھا " کے قصوں کی تعداد تئیس سے زیادہ ہے لیکن ان میں سے دستیاب قصوں کی تعداد سترہ ہے۔ زیر نظر کتاب میں انہوں قصوں کی فنی، فکری، سماجی ، ثقافتی ، تہذیبی اور لسانی اعتبار سے تقابل کیا گیا ہے ۔ سرائیکی میں ہیر رانجھا کے قصوں کا تقابلی جائزہ
مصنف : محمد ممتاز خان بلوچ
Book Attributes | |
Pages | 185 |