- Writer: Mustansar Hussain Tarar
- Category: Travelogue (Safarnama)
- Pages: 231
- Stock: In Stock
- Model: STP-13589
جیسے ’’دیوسائی‘‘۔۔۔ ایک بادل ہے، ایک ریچھ ہے، ایک ُپھول ہے۔۔
اور جیسے ’’راکھ‘‘ دریائے سوات کا ایک سلیٹی منظر ہے، چوک چکلا ہے، کامران کی بارہ دردی ہے، قادر آباد جھیلیں ہیں۔۔
ایسے ہی پشاور ہے۔۔
ایک قدیم پیانو، پہلی جنگ عظیم کی نشانی، جس کے سٹول پر براجمان ایک لڑکی، بیتھوون کی سِمفنی، ’’ ُمون لائٹ سناٹا‘‘ بجارہی ہے۔۔
سوا دو ہزار برس قدیم عظیم کنشک کی نایاب صندوقچی ہے جو میرے سامنے میز پر دھری ہے اوراُس پر ابھرے ہوئے چہرے ُمجھے حیرت سے تکتے ہیں کہ یہ کون ہے جو ہماری ہزاروں برسوں کی تنہائی میںُ مخل ہونے کے لئے آگیا ہے۔۔
دوموٹرسائیکل کیرئر جن پر کپڑے کے تھان تہہ در تہہ لدے ہوئے ہیں اور اُن پر سلیٹی رنگ کے شٹل کاک برقعوں میں روپوش دو خواتین براجمان ہیں، جیسے حنوط ہوچکی ہوں۔۔
گور گٹھڑی کے مندر میں شیوا کا شاندار ِلنگ اپنے سیاہ ماتھے پر ُسرخ ِتلک لگائے ایستادہ ہے۔۔
سیٹھی حویلی کی چھتوں پر سرشام کہکشاں اتر رہی ہے اور اُس کے آنکھیں جھپکتے ستارے دمکتے جاتے ہیں۔۔
’’نہ رشوت لیتا ہے نہ بے ایمان ہوتا ہے۔۔ یہ عشق کمبخت تو عمران خان ہوگیا ہے‘‘ ایک ٹرک کے پیچھے لکھا ایک شعر۔۔
ایک ِسکھ بھرے بازار میں اپنے چھوٹے سے بیٹے کے کیسوں میں کنگھی کررہا ہے، شائد جوئیں بھی نکال رہا ہے۔۔
محلہ خداداد میں دلیپ کمار کے کھنڈر ہوچکے آبائی گھر میں دو سالخوردہ دیمک زدہ الماری بے آسرا پڑی ہے جس میں چھوٹا یوسف چوری ُچھپے پیسے جمع کرتا تھا۔۔ دو روز پیشتر بارشوں کی تاب نہ لاکر اُس بوسیدہ کمرے کی چھت بھی گر گئی تھی جہاں دلیپ کمار کا جنم ہوا تھا۔۔
ایک بوڑھا اُزبک نقش و نگار والا بابا پوپلے ُمنہ سے مسکراتا ّقصہ خوانی کی بھیڑیں سامان سے لدی ایک ریڑھی دھکیل رہا ہے۔۔
علی مردان خان کی رُوح اپنے شالیمارسے دور اپنی مقبرہ نما رہائش گاہ کے عظیم گنبد میں بھٹک رہی ہے۔۔
شاہ رُخ خان کے آبائی مکان سے ّمتصل اُس کے والد کا بانسوں کاگودام ہے جس کی کسی ایک سیڑھی پر چڑھتا وہ ناموری کی ُبلندیوں پر پہنچا۔۔
پنج تیرتھ کے اجڑے مندر کے آس پاس وہ یادگار مہابھارت تالاب تھے جو پانڈئوں سے منسوب تھے۔۔
پرتھوی راج کپور کی شاندار مسمار ہوتی آبائی حویلی میں اُس کی گرجدار آواز گونجتی تھی۔۔ یلغار ہو۔۔ جہاں راج کپور پیدا ہوا اُس کمرے کے کواڑ سے کان لگاکر ُسنئے، ’’آوارہ ہوں‘‘ کی دُھن سنائی دینے لگتی ہے۔۔
ایک نیلی آنکھوں والا دراز قامت لڑکا بال شانوں پر بکھرائے، بہت سنگھار والا اِک ادائے دلبری سے ایسے چلا جارہا ہے کہ اُس پر فدا ہوا جاسکتا تھا۔۔
قدیم پیانوں کے سٹول پر بیٹھی لڑکی ’’مون لائٹ سناٹا‘‘ کی دُھن بجائے چلی جاتی ہے۔۔
بس ایسا ہے پشاور۔۔
منظر ُیوں چشم زدن میں کوندتے ہیں، بس پل دو پل کے لئے اور پھر اوجھل ہوجاتے ہیں۔۔
اوجھل تو نہیں ثبت ہوجاتے ہیں میرے ذہن کی سکرین پر۔۔ اور یہ دھندلائیں گے نہیں جب تک میرا آخری ُسورج غروب نہیں ہوجاتا، تب بھی یہی محسوس ہوگا کہ بس پل دو پل ہوئے جب یہ منظر اوپر تلے نقش ہوتے چلے گئے۔۔ اور تب بھی ’’مون لائٹ سناٹا‘‘ کی دُھن سنائی دیتی چلی جائے گی جب تک حیات کی چاندنی ہمیشہ کے لئے ُبجھ نہیں جاتی۔۔
بس ایسا ہے پشاور۔۔
Book Attributes | |
Pages | 231 |