میں نے اس ناول سے بہت کچھ سیکھا۔ ایسا بھرپور ناول جو اس پورے علاقے کو پروجیکٹ کرتا ہو میں نے نہیں دیکھا۔ انھوں نے جس تفصیل سے لکھا ہے اس میں ذرا بھی جانبداری کا شائبہ نہیں ہوتا۔ انگریزی میں افغانستان پر تین چار ناول آئے ہیں مگر انگریزی کے سب ناولوں میں لگتا ہے کہ سنی سنائی باتیں ہیں، یا میڈیا کا بیانیہ ہے جس کو لے کر وہ لکھ رہے ہیں، حقیقتِ امر سے وہ بالکل واقف نہیں ہیں۔ یہ اُردو میں پہلا ناول ہے جس کو پڑھ کر صحیح صورتِ حال کا اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزوں سے متصادم معاشرہ کیسا تھا، طالبان کا معاشرہ کیسا تھا، پاکستان اور افغانستان کا جو تنازع چل رہا ہے، وہ کیسا تھا۔ زیف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کا یہ ناول اُردو کے بڑے ناولوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔
(افتخار عارف)
زیف سید ہمارے وہ بادشاہ سلامت دوست ہیں جن کی تحریر و تقریر کی سلطنت کی حدود مشرق و مغرب کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ایسے بادشاہ سلامت دنیا میں کم کم اِس طرح کے طرح دار اور علم کے حُبدار پائے جاتے ہیں۔ دلیل، تاریخ اور سماج کا مطالعہ اِن کے علم کا پھریرا لہراتا ہوا جاتا ہے۔ تخیل میمنہ و میسرہ پر ادب و شعر کے پروں کو پھڑپھڑاتا ہوا اڑتا ہے تب قلم اِن کا قلبِ لشکر کا عَلم بلند کیے میدانِ تحریر میں اُترتا ہے۔ ظفر سید کی تحریر کے بیچ جستجو، علم، تخیل، تاریخ اور سماج کی کئی ایک ندیاں اِس روانی سے بہتی ہیں کہ ایک کے بعد ایک طلسم اُن کے پانیوں کی پیاس بجھاتا بھی جاتا ہے اور بڑھاتا بھی جاتا ہے۔
’’گُل مینہ‘‘ اُن کا دوسرا ناول ہے۔ کئی کہانیوں کے ریشے اِس کے بیچ ایسے بندھے ہیں کہ اُن کی گانٹھیں ایک کے بعد ایک کُھلتی بھی جاتی ہیں اور آگے بندھتی بھی جاتی ہیں۔ تحریر میں روانی دریائے سندھ سے سِوا ہے، برفابی جیحوں و سیحوں اور دریائے آمو کے مثل ہے۔ شمالی علاقہ جات کی سماجی اور معاشرتی اور تاریخی اہمیت بیانیے کی ایسی دل آویزی کے ساتھ درجہ بدرجہ آگے بڑھتی ہے کہ قاری کو کئی ایک لرزا دینے والے اور مسحور کر دینے والے لمحوں سے گزارتی چلی جاتی ہے ۔
(علی اکبر ناطق)
’’گُل مینہ‘‘ ہمارے عہد کی وہ کتاب ہے جو نہ لکھی جاتی تو شاید یہ ایک بدعہدی ہوتی۔ کہانی ایک قبائلی عورت کے ساتھ چلتی چلتی تاریخ کی بھول بھلیوں میں گھومتی گھماتی زمانۂ حال میں داخل ہوتی ہے اور اپنے عہد کا نوحہ لکھ کر زیف سید قلم توڑ دیتے ہیں۔ وزیرستان کی تہذیب، تاریخ، حسن بن صباح کی جنت، بخارا کا ریگستان بازار، انگور اڈّے کا وہ کبابی جس کا کڑاہ افغانستان میں اور گاہکوں کی نشست پاکستان میں ہے، قندھار کے نواح میں اپنے خیمے میں مردہ پڑا احمد شاہ ابدالی اور اس کی گلی ہوئی ناک پہ چڑھا چاندی کا خول، انگریز سے چھینی تھری ناٹ تھری، مدرسے کی دیوار پہ جنت کا منظر پینٹ کرتا ٹرک آرٹسٹ شفیق، گُل مینہ کا گُل گوتھنا بیٹا اور مرتبان میں رکھے خودکش حملہ آوروں کے سر، الف لیلہ و لیلہ سے بھی دلچسپ اندازِ تحریر اور دکھ کی آفاقیت میں ڈوبی کہانی’’گُل مینہ‘‘۔ زیف سید صاحب نے حسبِ توقع کمال کر دیا۔ خاصے کی چیز ہے!!
(آمنہ مفتی)
مصنف ناول نویسی کی تکنیک کے ماسٹر ہیں جو نوآبادیاتی سامراج اور برطانوی اور روسی سلطنتوں کے درمیان کھیلے جانے والے ’’دا گریٹ گیم‘‘ کی رسہ کشی کے ماحول کو مذہبی رنگ میں رنگی مقامی آبادی کے حالات کے ساتھ ملا کر پیش کرتے ہیں، جہاں ایک کے بعد ایک مسلح جتھا ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہوتا ہے۔ اس علاقے کی جغرافیائی جزئیات کی عکاسی زیف سید کی تحریر کا خاصہ ہے۔ وہ افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے دونوں طرف واقع دیہات اور قصبوں کی صحیح جگہوں کے تعین میں بےمثال مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ ناول ہمیں شوکت صدیقی کے ’’جانگلوس‘‘ کی یاد دلاتا ہے، جس میں ناول نگار نے پنجاب اور اس کے گاؤں اور قصبوں کی بالکل درست عکاسی کی تھی۔
(ناظر محمود)
Book Attributes | |
Pages | 336 |