’مٹّی کے صنم‘‘ کرشن چندر کی دوسری آپ بیتی ہے جو ’’میری یادوں کے چنار‘‘ کی طرح مقبول ہوئی۔ اس ناول کا کینوس بھی بہت محدود ہے اور اس کا تعلّق اکثر و بیشتر کرشن چندر کے سکولی دَور سے ہے۔ بدیں وجہ اس کی افادیت بطور ایک سوانح حیات کے کرشن چندر کے لڑکپن تک ہے۔ گو دو ایک ابواب متفرق موضوعات پر بھی ہیں۔ ذر..
کرشن چندر کی فن پر دسترس اور عصری زندگی کی سُوجھ بُوجھ ایسی پکّی اور
سچّی ہے کہ ان کی زُود نویسی کے باوجود کہیں کہیں جلوہ دِکھا جاتی ہے۔
’’دادر پُل کے بچّے‘‘ اسی قسم کے ناولوں میں ہے۔
ڈاکٹر محمد احسن
کرشن چندر نے اس ناول میں بھگوان کو ایک ایسے متجسّس صاحبِ فہم و ذکا کے
استعارے کے طور..
کرشن چندر کے ناول پڑھیے تو انھیں اعلیٰ ناول نگار کہنے کا جی چاہتا ہے۔ افسانے پڑھیے تو خیال آتا ہے کہ یہ شخص ناول سے بہتر افسانے لکھتا ہے۔ طنزیہ مضامین پڑھیے تو یقین ہو جاتا ہے کہ طنز و مزاح ہی ان کا اصل میدان ہے۔ اس بو قلمونی سے انھیں نقصان بھی ہوا ہے اور فائدہ بھی۔ نقصان یہ ہوا ہے کہ کبھی کبھی ان ..
نوجوان ورتھر کی داستانِ غم
یہ ناول جرمنی کا ایک عالمگیر شہرت رکھنے والا فلسفی،
شاعر، ڈرامہ نگار اور ناول نویس یوحان وولف گانگ گوئٹے (1749) نے لکھا تھا۔
آپ نے قدیم زبانوں کے علاوہ مذہب و سائنس، تاریخ و جغرافیہ، ادب و فنون
لطیفہ، شہسواری اور سپہ گری کی تعلیم حاصل کی۔ پہلے ہی ملاقات میں نپولین
..
"مفرور" اردو زبان میں شائع ہونے والا فاطمہ بھٹو کا پہلا ناول ہے۔ یہ ان کے انگریزی زبان میں شائع ہونے والے ناول "The Runaways" کا ترجمہ ہے۔ فاطمہ بھٹو نے بے حد اعلیٰ مہارت اور ذہانت سے یہ جرأت مندانہ ناول لکھا ہے۔
ناول کا موضوع مذہبی انتہا پسندی اور طبقاتی تقسیم اور نئی نسل میں شناخت کے بحران میں ..
خود کشی کسی فرد کا آخری عمل ہوتا ہے۔ آیا یہ ایک انتہائی جرات مندانہ فعل ہے یا انتہائی بزدلی کا عمل، اس پر ماہرین نفسیات متفق نہیں۔نامور تخلیق کاروں کی بھی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے زندگی کے اختتام کا یہ طریقہ اختیار کیا؛ ونسنٹ وین گو، ارنسٹ ہیمنگوے، سلویا پلاتھ، ورجینیا وولف، این سیکسٹن، اور خود پا..