ناروے کے ناول نگار کنوٹ ہامسن کا سب سے مشہور ناول
”بھوک“ 1890ء میں جب منظرِ عام پر آیا تو ناروے کے اَدبی اور سرکاری حلقوں
میں ہنگامہ بپا ہو گیا۔ یہ ناول گھناؤنی سماجی زندگی پر ایک کاری ضرب تھا
اور اس کے چَھپنے پر بہت لے دے ہوئی۔ تنقید کی بارش چاروں طرف سے برسنے
لگی اور کنوٹ ہامسن کو ایک بہ..
سلطان اور خان عثمانی ترکوں کا پہلا حکمران تھا جس نے نہ صرف پورے اناطولیہ میں ترکوں کی حکومت قائم کی بلکہ بڑے بڑے یور پی سور ماؤں کو اپنے سامنے زیر کیا وہ حقیقی معنوں میں عثمانی سلطنت کا بانی قرار دیا جا تا ہے- دور دراز کی سر زمینوں کے ترک اس کی فتوحات کا سن کر اس کے لشکر میں شامل ہونا ف..
وہ ایک مصنف ہے لیکن عاشق بھی۔ وہ اپنی تخلیق کردہ عورت سے عشق میں مبتلا ہو گیا اور اس نے اپنی خلق کی ہوئی دنیا کا ایک کردار بننے کی خواہش کی۔ وہ نہیں جانتا کہ کہانی اس کے اختیار سے باہر ہو چکی ہے۔ وہ کہانی کا اصل ہیرو ہے لیکن اسے اس کا کردار ادا کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ اس کے پاس بغاوت کے سوا کوئی راس..
یہ ناول مشرف عالم ذوقی کے شاہکار ناول مرگ انبوہ کا دوسرا حصّہ ہے۔
مردہ خانہ میں عورت، جس نے میرے اندر ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر دی ہے بہت سارے سوالات ذہن میں ڈال دیے۔جب اس ناول کو پڑھنا شروع کیا تو ابتدا ہی سے تجسس نے مجھے گھیرے رکھا۔جب تک مکمل نہیں پڑھ لیا تب تک اٹھ نہیں پائی۔ یہ ناول 2020 کے شان..
تنہائی کے سو سال - نوبل انعام یافتہ ناول - یہ کتاب سرورق کے حساب سے صدیوں پرانی لگ رہی ہوگی ۔ لیکن جب یہ آپ کے سامنے آئے گی توآپ حیرت سے اچھل پڑیں گے ، تحیر سے آپ کا رنگ زرد ہو جائے گا ، آپ کی آنکھیں اس کو دیکھ کر کھلی کی کھلی رہ جائیں گی ۔جی ہاں ! اس کتاب نے نقاب اوڑھ رکھا ہے ، نقاب کے..
یہ صرف وہی جانتی ہے کہ کس کی روح جگنو ( شب چراغ ) کا روپ دھار کر سر شام حو یلی کے گر دمنڈلا نہ شروع کردیتی ہے ۔ یہحویلی یہاں پروان چڑھنے والی محبتوں کی راز دان ہے ۔ جدائیوں کی چشم دید گواہ ہے ۔اس حویلی نے سرداری نظام کے پھندوںمیں گرفتار زندگی کے دکھ جھیلے ہیں ۔ نام نہاد غیرت کے نام پر ظلم کی یلغار د..
می سوزم!
حمیرااشفاق کا پہلا ناول ہے ۔ یہ اس سوختہ اختر شاعرہ کی کہانی ہے جو پہلے رابعہ بلخی اور رابعہ خضداری کے نام سے مشہور ہوئی ۔ایک ہزار سال پہلے پیدا ہونے والی فارسی اور عر بی کی شاعرہ بلوچستان کی وہ بیٹی تھی، جسے سب سے پہلے کاروکاری کا شکار بنناپڑا۔معروف فارسی شاعر رؔدوکی کی ہم عصر شاعرہ کات..
اس ناول نے میرے اندرعجیب و غریب کیفیات برپا کیں۔ اس کا ماحول تاریک ہے اور قدرے بھیانک بھی۔ نہایت وسیع پھیلائو ہونےکے باوجود مصنف نے بہت مہارت سے اور قدرے اختصار کے ساتھ ماضی، حال اور مستقبل کے نسبتی سلسلوں کی بنت کاری کی ہے۔ اس تجربے کا ماحصل یہ لرزا دینے والا تصور ہے کہ بدی یعنی حرص اور تخریب کی جب..
’’یہ ادیب لوگ بھی تو دھرتی کے خدا ہوتے ہیں، قلم اُٹھایا تو اپنے افسانوں میں جیسا جی میں آیا کسی کی قسمت لکھ ڈالی ۔‘‘
’’کوئی زندگی کا وارث نہیں، سب جگہ لوگ موت کے وارث ہیں۔‘‘
’’آدمی دوستی کرے تو چاند سورج سے جو اور کچھ نہیں تو وقت پر آ تو جاتے ہیں۔ آدمیوں کا کیا بھروسہ۔‘‘
’’جیسے دو آدمی مل کر..
میں نے اس سے پہلے بھی طاہرہ اقبال کے کئی طویل افسانے پڑھے ہیں مگر یہ ان کے ناول ’’گراں‘‘ کا ابتدائی باب، اس کے بارے میں تو یہی کہوں گی کہ ایں کارِگراں .... تو بس ایں چیزے دِگر است۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے قلم میں نہ اتنی طاقت ہے اور نہ ہی وہ الفاظ کہ میں اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ہمت کر سکوں۔ کوئی ایک ..
1) غدار - صفحات: 1642) شکست -صفحات: 3343) سڑک واپس جاتی ہے- صفحات: 2084) باون پتے - صفحات: 3355) ہم وحشی ہیں - صفحات: 1846) ایک عورت ہزار دیوانے - صفحات: 2327) الٹا درخت - صفحات: 1578) جب کھیت جاگے - صفحات: 1579) دوسری برف باری سے پہلے - صفحات: 27210) ایک گدھے کی سرگزشت..
برسوں ہوئے میں ایک بار گُل مرگ گیا اور وہاں ایک ہوٹل میں ٹھہرا تو اُس کے منیجر نے بتایا کہ کرشن چندر نے اُس ہوٹل کے ایک کمرے میں اپنا ناول ’’شکست‘‘ مکمل کیا تھا۔ مَیں نے کہا، مجھے وہ کمرہ تو دکھاؤ۔ اُس کمرے میں دو کھڑکیاں تھیں۔ یہاں ایک کھڑکی کھولی تو سامنے ایک بالکنی تھی (اس بالکنی کی کہانی وہ لکھ ..