اِس کہانی کا مرکزی کردار ’دلدار شاہ‘ گزشتہ چار دہائیوں سے میرے حافظے میں ایک آسیب کی طرح چمٹا رہا۔ دلدار شاہ کے بزرگوں کو انگریز سرکار نے سب سے بڑی جاگیر غالباً تین ہزار پانچ سو ایکڑ عطا کی تھی۔ غیر مُلکی آقاؤں کے اعتماد اور روحانی گدی کی سرکاری سرپرستی سے خاندان کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوتا رہا۔
..
ایک دفعہ ’’نولکھی کوٹھی‘‘ ناول کو پڑھنا شروع کیا تو آخری صفحے تک پڑھتی ہی چلی گئی۔ یہ جیسے کوئی آنکھوں دیکھا قصہ تھا جس کی سچائی نے ذہن کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ علی اکبر کی تحریر پڑھتے ہوئے آپ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ (فہمیدہ ریاض)..
کمال!کاوش صدیقی کی تحریر پڑھ کے بے ساختہ یہی جملہ منہ سے نکلتا ہے۔ چٹکی لیتے مکالمے گویا ہاتھ باندھے قطار در قطار چلے آ رہے ہیں۔ کہیں نہیں لگتا کہ صورتحال کی مناسبت سے اس سے بہتر جملہ ہوسکتا ہے۔ خیال نادر ، افسانہ طرازی کی فسوں آمیز فضا، کہیں امید ، کہیں آس ، کہیں نراش ، کرداروں کی ساخت ، بنت ایس..
ہر کسے کُو دور ماند از اصلِ خویشباز جوید روزگارِ وصلِ خویش(جو کوئی اپنی اصل سے دور ہوجاتا ہے وہ اپنے وصل کا زمانہ پھر تلاش کرتا ہے)رومی کا یہ شعر اُن کی معرکہ آرا مثنوی کے ابتدائی اشعار میں سے ہے۔ یوں رومی کی ساری شاعری اپنی اصل سے وصل کی تمنّا معلوم ہوتی ہے اور اسی تمنّا کی بازگشت ربی سنکربل کے اس ..
1930 ء سے 1935ء تک کا زمانہ چین کیلئے ایک تاریک دور کی
حیثیت رکھتا تھا،ملک بدترین قومی بحران کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا،جاپانی
سامراجی 18 ستمبر 1931ء کو چار شمال مشرقی صوبوں پر قبضہ کرنے کے بعد چین
کے مزید علاقے ھتھیانے کی سازشوں میں لگے ہوئے تھے،انہوں نے یکے بعد دیگرے
شنگھائی ، چھاھار اور سو..